نئی دہلی (این این آئی) بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہی دیرینہ تصفیہ طلب مسائل کے حل کی جانب بڑھنے کا واحد راستہ ہیں ٗایران کے پاکستان اور خلیج ممالک کے ساتھ شاندار تعلقات ہیں ہم اس اتحاد کا حصہ ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہے، کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں ٗبھارتی جاسوس کلبھوشن کو قانون کے مطابق سزا ہوئی ہے۔
ایک انٹرویو میں ہائی کمشنر نے کہا کہ جیسا کہ دونوں ممالک کے مابین سنجیدہ مسائل حل طلب ہیں اس لئے جب تک ایک دوسرے سے مذاکرات نہیں کرتے تو یہ مسائل کیسے حل ہو سکیں گے۔ آئندہ ہفتہ آستانہ میں بھارتی وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات کی کوشش پاکستان کی جانب سے کی جا رہی ہے سے متعلق سوال کے جواب میں عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان مذاکرات پر یقین رکھتا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اس دوران کوئی ملاقات دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کیوں نہیں سفارتکاری میں مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اس میں یہ کبھی مکمل بند نہیں ہوتے، میں ہمیشہ سے ان تعلقات سے متعلق پرامید ہوں۔ سچی بات کہوں گا کہ آپ ہمیشہ یا غیرمعینہ مدت تک دشمنی میں نہیں رہ سکتے، بھارتی کاروباری شخصیت سجن جندال کے دورہ پاکستان سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ دورہ ان کا خالصتاً نجی دورہ تھا کوئی سرکاری نہیں تھا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق ہائی کمشنر نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کو جاسوسی پر سزا ہوئی ہے اور جو اپیل ان کی جانب سے ایپلیٹ کورٹ میں دائر کی گئی ہے‘
رحم کی اپیل سمیت یہ تمام کارروائی خارج ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے یادیو کو قونصلر رسائی نہ دینے کا فیصلہ دو طرفہ کونسلر رسائی معاہدے کے تحت کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سلامتی سے متعلق ایشوز پر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔ عالمی عدالت انصاف میں سماعت سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کوئی ناکامی نہیں ہوئی ہے کیونکہ یہ حتمی فیصلہ نہیں بلکہ ایک حکم امتناعی ہے جو عمومی طور پر ایسے مقدمات میں متوقع ہوتا ہے تاہم ایسے مقدمات میں دھچکے نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ کمانڈر یادیو اپنے تمام جرائم کا اعتراف کر چکا ہے اور پاکستان کو یقین تھا کہ کلبھوشن تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث رہ چکا ہے اور پاکستان پابند نہیں ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ثبوتوں کا تبادلہ کرے۔ ایک سوال کے جواب میں عبدالباسط نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان کے لئے بھی بہت بڑا مسئلہ تھا اور کمانڈر یادیو کی سزا سے واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بیرونی محرکات تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب دہشت گردی پر بات ہوتی ہے پاکستان کو بھی اس پر سنگین تحفظات ہیں،
ہم بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات میں اپنے تحفظات اٹھائیں گے۔ ممبئی اور پٹھان کوٹ کے واقعات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز میں پیش رفت کے لئے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے۔عرب قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق انہوں نے کہا کہ ایران کے پاکستان اور خلیج ممالک کے ساتھ شاندار تعلقات ہیں ہم اس اتحاد کا حصہ ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ہے، کسی مخصوص ملک کے خلاف نہیں۔
ریاض سربراہ اجلاس میں ایران کو تنہا کرنے سے متعلق جو اظہار خیال کیا گیا سے متعلق پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب اور خلیج ممالک کے ساتھ تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ایران کے ساتھ تعلقات بھی مساوی اہمیت رکھتے ہیں اس لئے پاکستان جانبداری پسند نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ممکن ہوا تو پاکستان کی کوشش ہوگی کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں پل کا کردار ادا کرے۔ افغانستان کی جانب سے کابل بم حملوں سے متعلق الزامات سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے پاکستان خود دہشتگردی کا متاثر ہے اور متاثرہ ملک کی حیثیت سے پاکستان کسی بھی صورت یا مقصد کیلئے دہشتگردی کی اجازت نہیں دے سکتا۔