کابل(آئی این پی)شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جبکہ طالبان نے حملے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی تحریک کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہاکہ ایسے خونریز حملوں کی مذمت کرتے ہیں جن میں شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں شہری ہلاکتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ طالبان نے حملے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکی تحریک کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے،واضح رہے کہ 28 مئی 2017 کو ماہ رمضان المبارک کے پہلے ہی روز افغانستان میں صوبائی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر کیے جانے والے خودکش حملے میں 18 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس سے قبل 23 مئی کو قندھار میں فوجی بیس کیمپ پر مسلح شدت پسندوں کے حملے میں بھی 10 افغان فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ زابل میں طالبان جنگجوں نے مختلف سیکیورٹی چیک پوسٹس پر بیک وقت حملہ کرتے ہوئے 20 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ موسم بہار کے حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں جس کے دوران کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا۔گزشتہ ماہ شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے حملے میں 135 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کو ایک اور مشکل سال کا سامنا کرنا پڑے گا۔واضح رہے کہ حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے وائٹ ہاس سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کے لیے مزید ہزاروں امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں۔
یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں افغانستان سے بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوا تھا تاہم یہاں مقامی فورسز کی تربیت کے لیے امریکی اور نیٹو کی کچھ فورسز کو تعینات رکھا گیا۔اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی جبکہ 5000 نیٹو اہلکار موجود ہیں جبکہ چھ برس قبل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔