دمشق(آئی این پی)شامی حکومت کے مذاکرات کار ریٹائرڈ میجر جنرل احمد غضبان کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ،انھیں شامی حکومت نے 24 گھنٹے قبل ہی وادی بردی میں حزب اختلاف سے مذاکرات کے لیے نامزد کیا تھا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے اطلاع دی ہے کہ شامی حکومت نے مسلح دھڑوں پر ان کے قتل کا الزام عائد کیا ہے جبکہ شامی کارکنان کا کہنا ہے کہ حزب اللہ ملیشیا ان کے قتل میں ملوث ہے کیونکہ ان کا قتل شامی حکومت کے کنٹرول والے علاقے میں ہوا ہے۔
اس دوران میں یہ غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ دارالحکومت دمشق کو آب رسانی کا نظام بحال کرنے کے لیے آنے والی مرمتی ٹیم واپس چلی گئی ہے۔رصدگاہ نے جمعہ کو اطلاع دی تھی کہ شامی حکومت نے غضبان کو پانی کے بحران کے حل کی ذمے داری سونپی تھی اور سمجھوتے کے تحت جو جنگجو وادی بردی میں رہنا چاہتے ہیں،انھیں ایسا کرنے کی اجازت ہوگی۔تاہم جو وہاں نہیں رہنا چاہتے اور جہاں بھی جانا چاہتے ہوں ،انھیں اس کی اجازت ہوگی۔ذرائع کے مطابق اس سمجھوتے میں غیر شامی فوجی جنگجو شامل نہیں اور انھیں وادی بردی سے بے دخل کردیا جائے گا۔جمعے کے روز شامی فورسز اور حزب اللہ ملیشیا نے وادی بردی میں واقع بسیمہ ،کفیر الزیت ،کفر العوامید ،دیر مقرن اور دیر قانون پر قبضہ کر لیا تھا۔