انقرہ(مانیٹرنگ ڈیسک)ترکی کے رہنے والے رشید طغرل نے سوشل میڈیا پر اپنے بہت سے پرستار بنائے تھے۔ اس کی وجہ اس کی اپنے آبائی وطن میں رات کے وقت آسمان کی کھینچی گئی وہ سحر انگیز تصویریں تھیں جو اس نے سوشل میڈیا پر جاری کی تھیں۔ وہ اپنی تصویریں نیشنل جیوگرافک کی ویب سائٹ پر شیئر کیا کرتا تھا۔ ایسی ہی ایک تصویر رات کے وقت ایک روشن کہکشاں کے پس منظر میں صنوبر کے ایک درخت کی تھی۔
اس نے فن لینڈ کے ایک اعلی درجے کی یونیورسٹی میں ایسٹرو فزکس یعنی فلکی طبعیات پڑھنے کے لیے داخلہ لیا۔ وہ وجیہہ و شکیل اور ذہین نوجوان تھا جسے مہم جوئی اور گھومنے پھرنے کا شوق تھا، اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اجرامِ فلکی سے متعلق کسی شعبے میں نام کمائے گا۔
لیکن شاید طغرل کو اس سے کچھ زیادہ کی خواہش تھی۔ وہ ایک قدامت پسند مسلمان خاندان میں پلا بڑھا، نماز روزے کا پابند نوجوان تھا۔ کالج میں پڑھائی کے دوران اس کا میلان جہادی ویب سائٹوں کی جانب مبذول ہوا۔ اور ان ویب سائٹوں پر موجود اسلام کی شدت پسند تفسیریں اور تشریحات اس کے دل میں گھر کر گئیں۔
سن دو ہزار پندرہ کے اوائل میں وہ اپنا خاندان اور ایک اچھی خاصی آرام دہ زندگی چھوڑ کر دہشت گرد تنظیم داعش کی اس شاخ میں شامل ہوگیا جو شام میں نبرد آزما تھی۔گزشتہ اگست میں کْرد فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے طغرل مارا گیا۔ اس کی عمر صرف 27 برس تھی۔داعش کے نظریات، تشہیر اور نشر و اشاعت سے متاثر ہو کر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان نوجوان عراق اور شام جا چکے ہیں، جہاں اس تنظیم نے خود ساختہ خلافت قائم کی ہوئی ہے۔
یہ نوجوان، اِس دہشت گرد تنظیم میں شامل ہو کر پرتشدد انتہا پسندی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ طغرل کی طرح ، بہت سوں نے اپنی آرام دہ زندگی اور روشن مسقبل کو چھوڑ کر اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ کئی اعتبار سے طغرل کی کہانی ذرا مختلف ہے۔ اس نے ایک عشرے پر محیط اپنی تبدیلی کی کہانی کو بڑی تفصیل سے تصویروں اور تحریروں کی شکل میں چھوڑا ہے۔
ترکی کا ایک انتہائی تعلیم یافتہ ماہر فلکیات نوجوان داعش کا جنگجو کیسے بن گیا؟ حیران و پریشان کر دینے والی کہانی منظر عام پر آ گئی
29
دسمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں