واشنگٹن (آئی این پی) تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نئی حکومت اور انتظامیہ کے آنے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان الجھتے تعلقات کے سرے بظاہر سلجھنا ممکن نہیں دکھائی دیتے ،یہ تعلقات آئندہ چند برسوں میں بہتری کی بجائے مزید خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم کا خطرہ بہرحال موجود ہے،امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے زیرِ اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔
یہ مباحثہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں حالیہ بڑھتی کشیدگی اور نئی امریکی حکومت کی ممکنہ پاکستان اور بھارت پالیسی اور ثالثی کے کردار کے تناظر میں منعقد کیا گیا تھا۔رواں برس ستمبر کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بھارت میں اڑی حملے کے بعد تیزی سے تلخی کی جانب بڑھتے دکھائی دئےدونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ وقتا فوقتا جاری رہا اور دونوں ممالک کا میڈیا اب تک ایک دوسرے کے خلاف تلخ زبان استعمال کر رہا ہے۔دوسری طرف اس تمام صورتحال میں ایک اہم سوال امریکہ کے کردار پر بھی اٹھتا ہے جہاں گذشتہ ماہ نومبر میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا نیا صدر منتخب کیا گیا ہے اور جو اگلے ماہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازعے پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔مباحثے کے شرکا میں شمائلہ چوہدری، ٹوبی ڈیلٹین، سدانند دھومے اور سمیر للوانی شامل تھے، جبکہ اس مباحثے کی میزبانی معید یوسف کے سپرد تھی جو یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے شعبہِ ایشیا کے ایسوسی ایٹ وائس پریذیڈنٹ ہیں۔سمیر للیانی، مقامی تھنک ٹینک سِٹمسن سنٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات پر از سرِ نو غور کرنا ہوگا جس میں یقیناًبھارت کے ساتھ مستحکم اور طویل المدتی تعلقات شامل ہیں مگر دوسری طرف پاکستان کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مستقبل کے بڑے مسائل جیسا کہ دہشت گردی، داعش سے نمٹنے کے حوالے سے پالیسیاں وضع کرنا ضروری ہے۔
ٹوبی ڈیلٹین واشنگٹن کے تھنک ٹینک کارنیگی اینڈامنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے نیوکلئیر پالیسی پروگرام کے ساتھ بطور شریک ڈائریکٹر منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ نئے امریکی صدر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ حل کرانے کا دعوی کرنے کی بجائے یہ بتانا چاہیئے کہ اس حوالے سے انکا لائحہِ عمل کیا ہوگا اور کیا انہوں نے اس حوالے سے کوئی لائحہِ عمل وضع کر رکھا ہے؟شمائلہ چوہدری امریکہ کی قومی سیکورٹی کونسل میں بطور پاکستان ڈائریکٹر کام کر چکی ہیں اور جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں عالمی امور کے شعبے سے منسلک ہیں۔ شمائلہ چوہدری کا کہنا تھا کہ امریکہ کے لیے بھارت اور پاکستان کے تعلقات بنیادی نوعیت کا ایسا مسئلہ نہیں جسے وہ فوری طور پر حل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ شمائلہ چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم کا خطرہ بہرحال موجود ہے۔جب دو ممالک کے پاس نیوکلئیر ہتھیار ہوں اور ان کے آپس کے تعلقات نشیب و فراز پر مبنی ہوں تو براہِ راست تصادم کے خطرے سے نگاہیں موڑی نہیں جا سکتیں۔سدانند دھومے، امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ بطور ریذیڈنٹ فیلو منسلک ہیں، بھارتی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور حال ہی میں بھارت کے دورے سے لوٹے ہیں۔ سدانند دھومے کا کہنا ہے کہ بھارت کا منظرنامہ نریندر مودی کے بعد بدل چکا ہے اور اڑی حملے کے بعد اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی پہلے کی نسبت زیادہ جارحانہ ہو سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ بھارت اب سفارتکاری کے ذریعے معاملات طے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھے۔مباحثے کے اختتام پر تمام شرکا اس بات پر متفق دکھائی دئے کہ امریکہ میں نئی حکومت اور انتظامیہ کے آنے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان الجھتے تعلقات کے سرے بظاہر سلجھنا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔ شمائلہ چوہدری اور ٹوبی ڈیلٹین کے اندیشے کے مطابق، یہ تعلقات آئندہ چند برسوں میں بہتری کی بجائے مزید خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔