منگل‬‮ ، 29 جولائی‬‮ 2025 

پاکستانی سعودی عرب کیلئے کیا کررہے ہیں؟سروے نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا

datetime 4  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد اور مختلف پیشوں سے وابستہ نمایاں غیرملکیوں کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت وہاں فلپائنی اور بنگلہ دیشی کم اجرتوں پر کام کی وجہ سے چھائے ہوئے ہیں۔اعداد و شمار اس تصور کی تردید کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی تارکین وطن کی دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں تعداد سب سے زیادہ ہے اور وہ مختلف شعبوں میں چھائے ہوئے ہیں۔عرب روزنامے مکہ میں شائع ایک مطالعاتی سروے کے مطابق سعودی عرب میں مقیم26 ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تقریباً90 پیشوں پر مکمل کنٹرول ہے۔یہ سروے سعودی میڈیکل سنٹر برائے مشاورت اور مطالعہ (ایس ایم سی) نے کیا ہے۔اس کے نتائج کے مطابق سعودی شہری اس فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں اور وہ صرف نو پیشوں سے وابستہ ہیں۔سعودی شہری تدریس اور حفظ قرآن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔وہ مساجد میں پیش امام ہیں،موذن ہیں،تجارتی بنکوں میں فرنٹ ڈیسک افسر کے طور پر کام کررہے ہیں۔سرکاری بسوں اور بھاری ٹرکوں کے ڈرائیور ہیں،تعلیمی اداروں کی بسیں چلاتے ہیں ،کاروں کی نیلامی کے ڈیلر ہیں اور سکیورٹی محافظ ہیں۔سروے کے نتائج کے مطابق نوممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا نجی شعبے کی ستر فی صد ملازمتوں پر کنٹرول ہے۔ان ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔اس کے بعد یمن ،مصر ،بھارت ،بنگلہ دیش ،اردن ،فلسطین ،سوڈان اور شام کا بالترتیب نمبر آتا ہے۔سینٹر کے ڈائرکٹر جمال بنون کا کہنا ہے کہ اس فیلڈ سروے میں ان دفتری ملازمتوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن سے سعودیوں کو روزانہ کی بنیاد پر براہ راست کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔سروے کے نتائج کے مطابق یمنیوں کا تمباکو اور شیشہ مارکیٹ پر مکمل کنٹرول ہے۔اس کے علاوہ گوشت یا مرغی کے گوشت ملے چاول پکانے والے ریستورانوں کے مالکان بھی یمنی ہیں۔مصری اور بھارتی تارکین وطن کی اکثریت سعودی عرب میں فارماسسٹ ہے یعنی ادویہ اور دواسازی کی صنعت سے وابستہ ہے جبکہ فلپائن ،انڈونیشیا اور ایتھوپیا سمیت دس ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن بیوٹی سیلونز پر کام کرتے ہیں یا انہوں نے یہ دکانیں کھول رکھی ہیں۔سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ،یمن ،مصر اور بھارت سے تعلق رکھنے والے تارکین کی بڑی اکثریت مزدور پیشہ ہے اور لیبر مارکیٹ میں ان ممالک کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔اس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ سعودی’بخاری رائس ریستورانوں‘ میں کھانے کے لیے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ ریستوراں ترکمانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن چلا رہے ہیں۔دوسری جانب یمنی ان مشہور ریستورانوں میں کام کرتے ہیں جہاں تلا ہو جگر فروخت کیا جاتا ہے اور سعودی اس کو ناشتے میں شوق سے کھاتے ہیں۔سعودی شہریوں سمیت19ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موبائل فونز اور ان کی متعلقہ چیزوں کی فروخت کی دکانوں ،شپنگ دفاتر، حجام کی دکانوں،کار ورکشاپس،ایکسچینج دفاتر اور بیکریوں میں کام کرتی ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب کے علاوہ پاکستان ، بھارت ، ترکی ، فلسطین ، اردن ، سوڈان ، مراکش ، تیونس ، الجزائر، یمن ، مصر ، شام ، لبنان، انڈونیشیا ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔سروے میں کل 60محققین نے حصہ لیا اور جدہ ، الریاض ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت دس سعودی شہروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔اس میں پیشوں اور ان سے وابستہ افراد کی شہریت کے حوالے سے سوال پوچھے گئے تھے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ماں کی محبت کے 4800 سال


آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…