اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) یورپی یونین سے برانیہ کی علیحدگی کے بعد معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگز نے بڑا دعویٰ کر دیا۔ سٹیفن ہاکنگز نے کہا کہ مجھے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے گہرا صدمہ پہنچا ہے۔ یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد برطانیہ اپنے ٹارگٹ پورے نہیں کر سکے گا۔ معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگز نے اپنے کالم میں لکھاکہ کیا ہماری زندگی میں دولت کی اہمیت ہے؟ کیا دولت اب بھی ہمیں امیر بنا سکتی ہے؟ کسی فزیسِسٹ کے لیے یہ سوال عجیب ہو سکتے ہیں لیکن برطانیہ کا ریفرنڈم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر دو چیزیں آپس میں کسی نہ کسی طرح جڑی ہوتی ہیں۔ اگر ہم کائنات کے بنیادی قاعدے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو دولت کے سوسائیٹی میں مثبت یا منفی کردار کو تسلیم نہ کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہو گی۔ریفرنڈم سے قبل میں نے بتایا تھا کہ یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔ میں ریفرینڈم کے نتیجہ پر بہت صدمہ میں ہوں لیکن میں نے زندگی سے سیکھا ہے کہ اپنے پاس جو ذرائع موجود ہوں ان کو بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے۔ اب ہمیں یورپ کے بغیر جینا سیکھنا ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ عوام نے یورپ سے علیحدگی کیوں اختیار کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ دولت تھی۔
پرائم منسٹر بنتے ہی تھریسا مے نے کہا کہ ہمیں خوشحالی لانے کے لیے اپنی اکانومی کو مضبوط کرنا ہو گا۔ہم سب کو معلوم ہے کہ دولت کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ میری سمجھ میں جو سب سے اہم وجہ ہے وہ گرانٹ سے متعلق ہے۔ برطانیہ بہت زیادہ دولت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دولت کا ایک بڑا ذریعہ یورپین کمیشن تھا۔ ان گرانٹس کے بغیر بہت سے اہم کام تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ کچھ برطانوی سائنس دانوں کا یورپی پروجیکٹس میں زیادہ رجحان اس بات کا ثبوت ہے۔ ہماری حکومت کو یہ مسئلہ جلد اس جلد حل کرنا ہو گا۔ دولت بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ میں نے کئی مواقع پر بتایا ہے کہ معذور طلبا کے لیے مہیا کی جانے والی رقم اس طریقے سے کم کر دی جائے گی۔ میرے لیے رقم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومتی رقم کی وجہ سے نہ صرف میرا کیریر بنا بلکہ میں ایک خوشحال زندگی بھی گزار پایا ہوں۔ایک بار جب میں سوئزرلینڈ میں تھا تو مجھے نمونیہ ہو گیا۔ میرے کالج نے مجھے علاج کے لیے برطانیہ جہاز کے ذریعے پہنچایا۔ کالج کی مالی مدد کے بغیر شاید میں زندہ ہی نہ بچتا۔
دولت انسان کو آزادی کا احساس دلاتی ہے بلکل ایسے ہی جیسے غربت انسان کی آزادی اور اس کی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔اس لیے میں میں دولت کی اہمیت کو نظر انداز کرنے والا آخری انسان ہونگا۔ اگرچہ رقم نے میری زندگی میں بنیادی کرداار ادا کیا ہے لیکن رقم کی وجہ سے میرے لوگوں سے تعلقات بھی ہیں۔ مجھ جیسے معذور شخص کی زندگی اور کام پر دولت خرچ کرنا لازما اہمیت رکھتا ہے لیکن پراپرٹی حاصل کرنا اتنا اہم نہیں ہے۔ اگر میرے پاس گھوڑا یا فراری کار خریدنے کی سکت ہوتی تو بھی مجھے نہیں معلوم کے ریس کا گھوڑا یا فراری گاڑی میرے کس کام آ سکتی تھی۔لیکن اب لوگ رقم سے زیادہ کچھ دوسری چیزوں کو بھی ا ہمیت دینا پسند کرتے ہیں۔ اب لوگ دولت اور علم و تجربہ کے بیچ موازنہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہین کہ کیا چیز کس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیا کسی چیز کی ملکیت ہماری اہداف کا راستہ روک بھی سکتی ہے؟ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں لوگ اسی سوچ کی تبدیلی کو اپنا کر چلیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کائنات اور نسلوں کے چیلنج بدلتے رہتے ہیں۔ ان میں دنیا کی آب و ہوا، کھانے کی چیزوں کی دستیابی، آبادی میں اضافہ، دوسری مخلوقات کا خاتمہ، بڑی خطرناک بیماریاں، اور سمندری حالات جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔
ایسے مسائل مل جل کر ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مسائل تبھی حل ہوں گے جب ممالک مل کر انسانیت کو بچانے کی غرض سے مشترکہ کوشش کریں۔ اب ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہے اور پرانے خیالات سے جان چھڑانی ہے۔ اب ہمیں بچوں کے طرح چیزوں کو شئیر کرنا سیکھنا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو بریکسٹ کی طرح اور کئی مسائل پیش آئیں گے اور حسد اور علیحدگی پسندی جیسی خصلتیں پیدا ہونگی۔ دولت کی تقسیم میں نا انصافیاں ہوں گی۔ شئیر کرنے جیسے اعلیٰ اخلاقی عوامل ناپید ہوجائیں گے اور لوگوں کے اندر دوریاں بڑھیں گی۔ اگر ایسا ہوا تو میں اس دنیا کو زیادہ دیر قائم رہتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور ہونگے۔ انسان سب سے زیادہ تعاون اور شئیر کرنے والی مخلوق ہے۔ ہمیں اپنی دولت کی تعریف کو وسیع کرنا ہو گا اور اس میں علم اورقدرتی ذرائع، انسانی صلاحیتیں اور انصاف کی تقسیم جیسے عوامل شامل کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو انسانیت کچھ بھی کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے۔
یورپی یونین سے علیحدگی۔۔۔ معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے برطانیہ کے مستقبل بارے ناقابل یقین دعویٰ کر دیا
1
اگست 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں