اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سعودی عرب کی وزارت محنت نے حال ہی میں کام کی جگہوں پر لباس کے ضابطے کی خلاف ورزی کی مرتکب خواتین پر ایک ہزار ریال تک جرمانہ عاید کرنے کے لیے حکم نامہ جاری کیا ہے۔وزارت کے اس اقدام پر سوشل میڈیا پر تند وتیز بحث چھڑ گئی ہے۔ایک مقامی اخبار میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق وزارت محنت نے ایک نیا چارٹر جاری کیا ہے جس کے تحت کام کی جگہوں پر لباس کے ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والی اور خاص طور پر سر نہ ڈھانپنے والی خواتین پر ایک ہزار ریال (266ڈالرز) جرمانہ عاید کیا جائے گا۔اس چارٹر میں لباس سے متعلق قواعد وضوابط بیان کیے گئے ہیں اور آجروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں کام کرنے والی خواتین کے لیے تحریری شکل میں لباس کا ضابطہ وضع کریں، جو کوئی آجر ایسا کرنے میں ناکام رہے گا تو اس پر پانچ ہزار ریال (1300ڈالرز) جرمانہ عاید کیا جائے گا۔اس میں تمام کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ خواتین کے لیے واضح تحریری ہدایات جاری کریں کہ وہ دفاتر میں موجود ہوتے ہوئے اپنے سروں کو ڈھانپ کر رکھیں۔سعودی وزارت محنت نے خواتین کے لیے رات کی شفٹ میں کام کرنے کو لازمی قراردینے والے اداروں پر جرمانہ عاید کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔اس کے علاوہ خواتین کے لیے الگ سیکشن نہ بنانے والی فرموں پر دس ہزار ریال (2600 ڈالرز) تک جرمانہ عاید کیا جائے گا۔ایسی کمپنیوں کے لیے یہ لازم قراردیا گیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر صورت حال کی توثیق کریں۔وزارت کے چارٹر میں بچوں سے مشقت لینے کی ممانعت سے متعلق شق بھی شامل ہے۔اس کے تحت تعمیرات کی جگہوں سمیت سخت کام والے مقامات پر کم عمر بچوں سے مزدوری لینے والی فرموں پر دس ہزار ریال تک جرمانہ عاید ہوسکتا ہے۔بعض ملازمت پیشہ خواتین نے اس حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ایک نجی کمپنی میں کام کرنے والی سعودی ملازمہ افنان کوکندی کا کہنا ہے کہ”میرے خیال میں یہ ایک اچھی پالیسی ہے کیونکہ خواتین دفاتر میں کام کے لیے آتی ہیں، کسی فیشن شو کے لیے تو نہیں آتی ہیں۔ایک عورت کی حیثیت سے آپ کو اسلامی لباس پہننا چاہیے اور کام پر جانے کے لیے ایسا بننے سنورنے یا لباس پہننے کی ضرورت نہیں ہے کہ جیسے آپ کسی شادی کی تقریب میں جارہی ہوں”۔سعودی عرب میں ایک اور نجی کمپنی میں کام کرنے والی خاتون ریحاف یمنی کا کہنا تھا کہ ”خواتین کو لباس کے اسلامی ضابطے کی پاس داری کرنی چاہیے۔خاص طور اس وقت جب دفاتر کا ماحول اس طرح کا ہو کہ ان کے ساتھ مرد حضرات بھی کام کرتے ہیں”۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ جرمانے کی رقم کچھ زیادہ ہے کیونکہ کمپنیوں پر عاید کیا جانے والا مجوزہ جرمانہ تو ایک ملازم کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے۔دوسری جانب بعض خواتین نے وزارت محنت کے اس فیصلے کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ایک نجی ادارے میں کام کرنے والی سعودی خاتون نورا فواد نے کہا کہ”میں اس نئی پالیسی کو پسند نہیں کرتی ہوں کیونکہ لباس ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ ایک عورت کا اللہ کے ساتھ بھی معاملہ ہے۔اس لیے عورتوں کو لباس کے انتخاب کے معاملے میں آزادی ہونی چاہیے”۔ایک اور خاتون سارہ نے بتایا کہ ”لباس کے ضابطے سے متعلق قانون تو پہلے ہی سے موجود ہے۔بدقسمتی سے بہت سے لوگ اس سے آگاہ نہیں ہیں کہ یہ قانون مروج بھی ہے۔اس میں نئی چیز صرف جرمانے کا اضافہ ہے”۔اس نئے قانون پر سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے اور بہت سے لوگوں نے اس فیصلے کو شاندار قرار دیا ہے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ یہ خواتین کے لیے غیر منصفانہ ہے۔ایک تبصرہ نگار نے اس پر یہ دلچسپ رائے دی ہے کہ اپنی قمیضوں کے بالائی بٹن کھولنے والے سیلز مینوں پر بھی جرمانہ عاید کیا جانا چاہیے۔سوشل میڈیا کے بعض صارفین نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ لباس کے ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین پر جرمانہ عاید کرنے کے بجائے انھیں کام کی جگہوں پر ہراساں ہونے سے بچانے کے لیے نئے قوانین متعارف کرانے کی ضرورت ہے جبکہ بعض نے یہ تجویز دی ہے کہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔