اسلام ااباد(نیوز ڈیسک) طالبان نے افغانستان کی جاری کشیدہ صورت حال کے سیاسی حل کے لئے امن مذاکرات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کردیا ہے تاہم مذاکراتی عمل سے قبل غیرملکی فوجوں کی واپسی اور ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کو ضروری قرار دیا ہے۔طالبان نے ایک جاری بیان میں کہا ہے کہ ’ہم جنگ کو ختم کرنے کے لئے با معنی مذاکرات کے آغاز کے لئے تیار ہیں۔‘واضح رہے کہ یہ بیان امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔خیال رہے کہ باراک اوباما، جو کہ رواں سال کے اختتام تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکالنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے، کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں موجودہ امریکی فوجی تعداد کو 2017 تک برقرار رکھا جائے گا۔طالبان نے بیان میں کہا ہے کہ ’قبضہ کسی بھی صورت میں ہو اسے ختم ہونا چاہیے، افغانیوں کے اتفاق رائے سے یہاں اسلامی حکومت بنائی جائے اور افغانستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت ختم ہونی چاہیے۔‘طالبان نے مزید کہا ہے کہ ’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب افغان شہریوں کو قبضے کے خاتمے اور غیرملکی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے یقین دہانی کروائی جائے گی تو انٹرا افغان افہام و تفہیم اور بات چیت سے تمام مسائل باآسانی حل ہوجائیں گے۔‘یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ ان کی حکومت افغان امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے کوششیں کرسکتی ہے۔وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھی کہا تھا کہ موسم سرما میں بغاوت میں ہونے والی کمی امن مذاکرات کی بحالی کے لئے موقع فراہم کرتی ہے۔دوسری جانب پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ ’ہم افغانستان میں امن اور تحفظ کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے اور ہم انٹرا افغان مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ پاکستان نے پہلے مرحلے کی میزبانی کی ہےاور اگر افغان حکومت چاہتی ہے تو ایک اور مرحلے کی میزبانی کے لئے بھی تیار ہیں، ‘ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس کی مدد سے افغانستان میں امن قائم ہوگا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں