ملا عمرکا مستقبل غیر یقینی ، افغان طالبان کی صفوں میں انتشار

27  جولائی  2015

پشاور (نیوزڈیسک) اس وقت جب طالبان کے سپریم کمانڈر ملا عمر کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہے ۔ تحریک طالبان افغانستان میں اندرونی رسہ کشی کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کے موجودہ سربراہ اختر محمد منصور کو کچھ اہم ملٹری کمانڈرز کی طرف سے بغاوت کا سامنا ہے۔طالبان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ منصور کی مخالفت ملا عمر کے بڑے بیٹے ملا محمد یعقوب کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ 26 سالہ یعقوب نے کراچی کے معروف مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہے اور اگر ان کے و الد کی موت کی تصدیق ہوجاتی ہے اور فیصلہ کرلیتی ہے تو وہ طالبان کی قیادت سنبھالنے کو تیار ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ منصور کی برتری کو چیلنج کرنے والے یعقوب کو اپنے والد ملا عمر کا قانونی وارث قرار دے رہے ہیں۔معروف تحقیقاتی صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کی ایک رپورٹ کے مطابق فریقین میں اختلافات اس وقت سامنے آئے جب پاکستانی حکام کے اصرار کرنے پر منصور نے 7 جولائی کو طالبان کا وفد افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے مری بھجوایا اور پھر عید پر ملا عمر کی طرف سے مذاکرات کی حمایت میں بیان جاری کروایا۔ ان دونوں فیصلوں سے طالبان کی صفوں میں موجود مذاکرات مخالفین مشتعل ہوگئے اور پھر پاکستان اور افغانستان میں منصور اور اس کے اشکزئی قبیلے کی تحریک میں اجارہ داری کیخلاف مشاورت شروع ہوگئی۔ منصور کے مخالف کمانڈرز اور درانی اور کاکڑ قبائل کی نورزئی اور علیزئی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ منصور کی قیادت کے خلاف بغاوت کرنے والے طالبان رہنمائوں میں ا سیر گوانتا نا مو بے عبدالقیوم ذاکر (علیزئی) ، ملا باز محمد (نورزئی) شامل ہیں جو جنوب مغربی افغانستان میں طالبان کے اہم طالبان کمانڈرز میں سے ہیں اور منصور داد اللہ شامل ہیں فجو کاکڑ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور مقتول کمانڈر ملا داد اللہ اخوند کے چھوٹے بھائی بھی ہیں۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ طالبان سے الگ ہونے والے گروپ فدائین محاذ جس نے حال ہی میں ملا عمر کی موت کا دعویٰ کیا ہے ملا نجیب اللہ نے قائم کیا تھا جو ملا داد اللہ اخوند (مرحوم) کا قریبی ساتھی ہے۔ ملا عمر کو مبینہ طور پر ان کے ایک محافظ نے 12مئی 2007ء کو ہلمند میں گولی مار دی تھی اور بعدازاں نیٹو اور افغان فورسز نے ان کی لاش قبضہ میں لے کر قندھار میں عوام کو دکھانے کے لئے رکھ دی تھی۔ ملا داد اللہ کے خاندان اور حامیوں نے منصور اور ان کے گروپ پر سازش کا الزام لگایا تھا اور اس سے طالبان کی صفوں میں ابتدائی اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ذرائع کے مطابق ذاکر اور ملا عبدالرئوف حال ہی میں ایک خفیہ اجلاس میں شریک تھے جس میں یعقوب کو طالبان کے آئندہ لیڈر کے طور پر متعارف کرایا گیا اور منصور کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ملا عمر کے چھوٹے بھائی عبدالمنان کی اجلاس میں موجودگی کا مقصد مبینہ طور پر یعقوب کیلئے خاندان کی حمایت کا اظہار کرنا اور منصور اور اس کے ساتھیوں کے مخالف طالبان کیمپ سے اظہار یکجہتی کرنا تھا۔ اس قسم کے اجلاس افغانستان او ر پاکستان میں ہو رہے ہیں اور ان کا مقصد منصور کیخلاف مضبوط اتحاد بنانا اور یعقوب کو مستقبل میں طالبان کے لیڈر کے طور پر پروموٹ کرنا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ منصور اچانک کوئٹہ کے نواح سے غائب ہو گیا اور ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں مل رہا۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ مری مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کرنے والے ملا عبدالجلیل اور ملا محمد عباس عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جا چکے ہیں اور ابھی تک واپسی نہیں ہوئی ہے۔ اگر طالبان کی صفوں میں بڑھتے ہوئے اختلا فا ت پر قابو نہ پایا گیا تو طالبان اور افغان حکومت کے در میا ن مذاکرات موخر ہو سکتے ہیں بلکہ خطرے میں پڑ سکتے ہیں مذاکرات مخالف گروپ اپنی عسکری قوت کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے اور امن عمل کیلئے ان کی حمایت کا نہ ہونا مذاکرات کا میابی کے امکانات کو متاثر کر سکتا ہے۔ ملا عمرکے ٹھکانے اور مستقبل کے بارے میں گزشتہ کئی سال سے قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن اس معاملے پر اس وقت کھل کر بحث ہونا شروع ہو گئی جب ملا نجیب اللہ کی قیامت میں طالبان سے الگ ہونے والے گروپ فدائن محاذ نے اپنے ترجمان قاری حمزہ کے ذریعے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا کہ ملا عمر 24ماہ قبل فوت ہو گیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے اس حوالے سے شواہد کی موجودگی کا دعویٰ کیا تاہم ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں دکھایا گیا۔ قاری حمزہ نے یہ بھی دعویٰ کیا ملا عمر کو منصور اور اس کے اتحادی گل آغا نے مارا۔ اس وقت طالبان کے فنانس کمیشن کے سربراہ ہیں اور سپریم کمانڈر کے قریبی تصور کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس دعویٰ کی تردید کی ہے اور اس کو تحریک طالبان کیخلاف روایتی پروپیگنڈا قرار دیا۔ فدائین محاذ کے بیان نے طالبان کے درمیان شدید بحث چھیڑ دی ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ ملا عمر اپنی موت کی تردید کیلئے اپنی آواز میں پیغام کیوں ریکارڈ نہیں کر ا سکا۔ یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ ملا عمر کا عید پر پیغام ای میل اور فیکس کے بجائے ریکارڈنگ کی صورت میں کیوں جاری نہ ہو سکا ان جواب طلب سوالات کی بنا پر ملا عمر کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ملا عمر زندہ ہوئے تو اپنی عمر کے 5ویں عشرے کے آخر میں ہوں گے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…