افغانستان (نیوزڈیسک) افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ لوگر میں ایک فوجی چوکی پر امریکی ہیلیکاپٹروں کے حملے میں کم از کم 14 افغان فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق پیر کی صبح دو امریکی ہیلی کاپٹروں کے ایک چوکی پر حملہ کیا۔ علاقے میں موجود افغان فوج کے کمانڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ چوکی پر افغان پرچم واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔ واقعے کے بعد امدادی کارروائیاں ابھی جاری ہیں۔ ادھر امریکی موقف ہے کہ وہ اس واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ کابل میں بی بی سی کے نامہ نگار ڈیوڈ لیون کا کہنا ہے کہ اب تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ یہ حملہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے ہی کیا تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور ہیلی کاپٹر امریکیوں کے ہی تھے۔ ہمارے نامہ نگار کے مطابق لوگر صوبہ زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے اور طالبان یہاں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت دس ہزار غیر ملکی فوجی تعینات ہیں جو کہ جن کی مرکزی ذمہ داری افغان فوجیوں کی تربیت ہے۔ نیٹو کا مشن مکمل ہونے کے بعد اب غیر ملکی فوجی جنگی کارروائیوں میں محدود حد تک ہی ملوث ہیں۔ امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج کے افغانستان حملے کے بعد سے فرینڈلی فائر میں عام شہریوں اور افغان فوجیوں کی ہلاکتیں کے واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف نہ صرف عوام میں غصے پایا جاتا ہے بلکہ افغان حکومت بھی متعدد بار اس پر احتجاج کر چکی ہے اور سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں ایسے حملوں کے بعد افغانستان کے امریکہ سے تعلقات کشیدہ بھی ہو گئے تھے۔ پیر کا واقعہ موسمِ گرما میں طالبان حملوں میں حالیہ اضافے کے بعد جوابی کارروائی کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ گذشتہ ہفتے افغان طالبان تحریک کے امیر ملا محمد عمر نے عید الفطر کے موقع پر ایک پیغام میں ’افغانستان میں امن کے لیے بات چیت کرنا جائز‘ قرار دیا تاہم انھوں نے اس سے قبل پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان رہنماؤں کے مذاکرات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا۔ ملا محمد عمر کا کہنا تھا کہ بات چیت کا مقصد افغانستان پر ’قبضے کو ختم کرنا‘ ہے