نیویارک(نیوزڈیسک) ایران سے ’’ایٹمی ڈیل‘‘ پرجہاں امریکا اور یورپ میں خوشیاںمنائی جارہی ہیں وہاں ایرانی قیادت اورعوام بھی بہت خوش اور پرجوش ہیں کہ 35 سال تک مغربی دنیا سے مخالفت، پابندیوں اور مشکلات کے بعد ایرن اور امریکا میں تعاون، ڈائیلاگ اورتجارت کا دورشروع ہوگا۔ اس ایٹمی معاہدے کے دونوں فریق یعنی امریکا اورایران اسے اپنی سفارتی اورمذاکراتی کامیابی قرار دے رہے ہیں جبکہ اس معاہدے کواسرائیل اورسعودی عرب ’’تاریخی غلطی‘‘ اور’’خطرناک معاہدہ‘‘ قرار دے دیکر اسکی سخت مخالفت کررہے ہیں۔ ایران اورامریکا کے درمیان تین سال قبل خفیہ مذاکرات کے ذریعے ڈائیلاگ کادروازہ کھولنے والی سلطنت اومان،متحدہ عرب امارات، شام اور پاکستان سمیت مسلم ممالک کی بڑی تعداد بھی خیرمقدم کررہی ہے لیکن اس معاہدے پرعمل کے آغازپر بھی مشکلات سامنے آنے والی ہیں۔ امریکی صدر اوباما جو صدارت سے اپنی سبکدوشی سے قبل تاریخ میں اپنی کامیابیوں کامثالی ’’ ورثہ‘‘ چھوڑنے کے شدید خواہشمند ہیں اورگزشتہ تھوڑے عرصہ میں کیوبا کی ناکہ بندی اور امریکی پابندیوں کے کئی عشروں تک تسلسل کوتوڑ کر کیوبا سے سفارتی تعلقات اور معاشی تعاون کے رشتے قائم کرکے تاریخی اقدام کیا ہے وہاں ایران سے ’’ ڈیل‘‘ کرکے مشرق وسطیٰ میں بھی نئے امریکی نقشہ کیلئے راہ ہموار کرڈالی ہے جس میں نئی اورحیران کن تبدیلیاں آنے والی ہیں ۔ صدراوباما امریکا کی کسی بھی وفاقی جیل کے اندر جاکر جائزہ لینے والے امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہونگے ۔ وہ امریکی تاریخ میں پہلے سیاہ فام صدر کے طورپر دوبار منتخب ہو کر بھی اپنا نام اور کامیابی تاریخ میں محفوظ کرواچکے ہیں ۔ تمام تر مخالفت اور مشکلات کے باوجود صدراوباما منفرد کامیابیوں پرمشتمل اپنا ’’ورثہ‘‘ امریکی قوم کودے چکے ہیں اورکچھ مزید بھی آنے کوہے۔ ایران سے ’’ ڈیل‘‘ میں تاریخی کامیابی کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں نئے جغرافیائی ، سیاسی اورحکومتی نقشے کی راہ ہموار کرلی ہے بلکہ آنے والے وقت میں اس خطے کے وسائل سے امریکا کی نئی نسل کیلئے بھی آرام دہ زندگی کو یقینی بنا ڈالا جبکہ امریکا کے مخالفین کو ’’ڈی گریڈ‘‘ (Degrade) اورپھر ڈسٹرائے (Destory) کرنے کی حکمت عملی کے بعض مراحل کو ابھی طے کرنا باقی ہے۔ ایران سے ’’ایٹمی ڈیل‘‘ کے اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا پر بھی مرتب ہونگے۔ مسلم دنیا میں عقائد کی بنیاد پر سیاسی، جغرافیائی اور ملی تقسیم کی تحریکوں میں تیزی آئی دکھائی دیتی ہے جبکہ امریکا ، بھارت اتحاد بھی جنوبی ایشیا میں اپنااصلی اورعملی چہرہ بھی سامنے آنے کوہے اورصدراوباما جنوبی ایشیا میں بھی اپنی حکمت عملی کی کامیابی کا ’’ورثہ‘‘ سبکدوشی سے قبل شامل ریکارڈ دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ وسطیٰ ایشیا کوبحرالکاہل ، بحر ہند اور بحیرہ عرب سے تجارت کی راہیں ہموار کرنے کیلئے پاکستان کی سرزمین اورشرکت کی لازمی ضرورت ہے چین کے گرد گھیرا یا حصار مکمل کرنے کیلئے بھی یہی ضرورت ہے۔ مغربی دنیا میں اب صرف پاکستان واحد ایٹمی ملک رہ گیاہے جسکے بارے میں مغربی حلقوں کو پاکستان کی باربار یقین دہانیوں کے باوجود فکر سوار ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے نئے اتحادی بھارت کی فکر تشویش اورارادوں کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کل ہی واشنگٹن میں انسداد دہشت گردی کیلئے اسرائیل اورامریکا کے جوائنٹ گروپ کاسالانہ اجلاس بھی مشرق وسطی اورمسلم ممالک کے بدلتے ہوئے حالات پر غور کرکے باہمی تعاون سے ’’ڈی گریڈ‘‘ اینڈ’’ڈسٹرائے‘‘ کی حکمت عمل پر عمل کرنے کیلئے آئندہ اقدامات کا فیصلہ ہوگا۔ ایران سے تاریخی ڈیل اورامریکا ایران تعاون، سعودی ناراضگی اورمسلمانوں میں فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دینے کے اس تیز رفتار ماحول میں پاکستانی قیادت کو بھی غیرمعمولی تدبر و دانش کے ساتھ پاکستانی مفادات کی حفاظت اور سلامتی کیلئے ڈائیلاگ، ڈپلومیسی اورحکمت عملی کی ضرورت ہے کیا پاکستانی قیادت اس بڑے چیلنج کے تقاضوں پر نظررکھے ہوئے ہے۔