اسلام آباد(نیوز ڈیسک) آگرہ میں موجود محبت کی یادگار عمارت ”تاج محل“ کی حیثیت کو متنازع بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اب یہ بحث چل نکلی ہے کہ تاج محل دراصل شاہجہاں نے مندر پر قبضہ کر کے بنایا تھا اور آج بھی وہاں تہہ خانے کے ایک بندکمرے میں ’شیواجی‘ مندر کی باقیات موجود ہیں لیکن بھارتی حکومت نے آج تک اس بند کمرے کو نہیں کھولا۔ مندر کی موجودگی کے ثبوت کے طور پر معروف دھارمک مصنف پی این اوک کی ریسرچ کو پیش کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کا اصل نام ”تیج ومحالائے“ تھا جس پر لارڈ شیوا جی کا مندر قائم تھا اور مختلف کتابوں کا اس کا ذکر 1500ء سے قبل ملتا ہے جبکہ ممتاز محل کی وفات 1631ء میں ہوئی اور انہیں آگرہ کے قریب برہان آباد میں سپرد خاک کیا گیا جہاں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ شاہجہاں نے 1632ئ میں آگرہ کے مندر تیج ومحالا ئے پر قبضہ کر کے وہاںپر ممتاز محل کی یاد میں تاج محل کی تعمیر شروع کروائی او ر مندر کی اشیائ کو تہہ خانے میں ایک کمرے میں رکھ کر کمرہ مستقل طور پر بند کر دیا جو آج تک بند ہے۔ شنکر اچاریہ سوامی سواروپ آنند نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں نے مندر پر قبضہ کر کے وہاںپر قبریں بنائیں اب طویل عرصہ بعد بھارت میں کٹر ہندو حکمران برسراقتدار آئے ہیں تو اس بات کی جانچ ہونا ضروری ہے کہ تاج محل دراصل ہندوﺅں کی جگہ ہے اور مسلمانوں کا قبضہ غیرقانونی ہے۔
مزید پڑھئے:مرغوں کی لڑائی رو مانیہ شہزادی کو مہنگی پڑ گئی
اس سلسلے میں آگرہ کی عدالت میں بھی درخواست دی گئی ہے جس نے آرکیالوجی سروے آف انڈیا کو نوٹس جاری کر دیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جائے اور تاج محل کے تہہ خانے میں موجود بند کمرہ کھولا جائے۔ شنکر اچاریہ سوامی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ تاج محل میں عید کی نماز کا سلسلہ روکا جائے اور وہاںپر ہندو مذہب کے حوالے سے اور طریقہ کار کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔