جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

دولتِ اسلامیہ کو کون شکست دے گا؟

datetime 5  جون‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن (نیوزڈیسک)مغربی سیاسی رہنماو¿ں نے خبردار کیا تھا کہ سخت گیر اسلامی تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ساتھ جنگ ایک طویل معرکہ ہو گا اور وقت کے ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی پیش گوئی درست تھی۔برطانوی سیکریٹری خارجہ فلپ ہیمنڈ نے اب اس جنگ کا موازنہ ایک بہت بڑی جنگ یعنی فاشسٹ نازی پارٹی کے خلاف دوسری جنگ عظیم سے کیا تھا۔لندن میں ایک تقریر میں انھوں نے حاضرین کو یاد دلایا کہ 1940 میں ڈنکرک میں برطانوی فوج کی واپسی سے لے کر یورپ میں اتحادیوں کی کامیابی میں پانچ سال لگے تھے۔ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ ’صبر کیا جائے۔‘زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ لڑائی میں وہی ممالک پیش پیش ہیں جن کے علاقوں پر دولتِ اسلامیہ نے قبضہ کر رکھا ہے۔مگر دولتِ اسلامیہ کو اس قدر کمزور کرنا کہ ان سے خطرہ انتہائی کم ہو جائے، اس بات کا انحصار دیگر اہم عسکری قوتوں پر ہے۔بین الاقوامی سطح پر یہ جنگ دو محاذوں، عراق اور شام میں لڑی جا رہی ہے، تاہم برطانیہ صرف عراقی محاذ میں شریک ہے۔لیکن یہ جنگ ایک اور مشکل محاذ پر نہیں لڑی جا رہی اور وہ ہے لیبیا جہاں دولتِ اسلامیہ نے کمزور حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرت قصبے کے گرد اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔تینوں ممالک میں دولتِ اسلامیہ مخالف اتحاد کو سخت سیاسی مشکلات کا سامنا ہے جس سے یہ لڑائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔اس وقت عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی کوششوں کے وہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے جو غیر ملکی فضائی حملوں اور عراقی فوج کو مضبوط کرنے کے اقدامات سے متوقع تھے۔عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کو ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی مدد لینا پڑ رہی ہے جو قومی مفاہمت میں سیاسی طور پر مہنگا پڑے گا۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کی کوششیں ناکافی ہیں اور مغربی ممالک انھیں وہ ہتھیار نہیں دے رہے جن کی انھیں ضرورت ہے۔ ادھر مغربی ممالک کو بھی اس بات کا یقین کم ہوتا جا رہا ہے کہ وہ یہ جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
’دولتِ اسلامیہ کو ہرانے کے لیے ایران عراق تعاون لازمی‘ ملیشیا پر انحصار کی وجہ سے قبیلے حکومت سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور انھیں اس بات کا یقین دلانا ہو گا کہ عراق کے مستقبل میں ان کی اہم جگہ ہے۔چنانچہ مغربی ممالک کی جانب سے عراقی حکومت پر یہ دباو¿ آ سکتا ہے کہ مزید امریکی فوجی تربیت کاروں کا استعمال کیا جائے۔ برطانوی شرکت میں بھی اضافے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اس سے ڈیوڈ کیمرون بھی امریکہ میں ایک بہتر دوست کے طور پر دیکھے جائیں گے۔شام میں بنیادی طور پر سیاسی پس منظر میں سب سے بڑا مسئلہ صدر بشار الاسد کی اقتدار پر گرفت قائم رکھنا ہےشام میں صورت حال قدرے زیادہ پریشان کن ہے۔ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو ملک میں جاری خانہ جنگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انھیں مشکلات تو ہیں مگر اب بھی ان کی ترک سرحد تک رسائی ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے یورپ میں شدت پسندی اختیار کرنے والے افراد آسانی سے دولتِ اسلامیہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔شام میں بنیادی طور پر سیاسی پس منظر میں سب سے بڑا مسئلہ صدر بشار الاسد کی اقتدار پر گرفت قائم رکھنا ہے۔ انھیں کمزور کرنے کا واحد طریقہ ان کے حامی ایران اور روس کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ ان کی پشت پناہی چھوڑ دیں۔اگر ایران اور مغربی ممالک میں جوہری معاملات پر معاہدے کی صورت میں تعلقات بہتر ہو گئے تو شاید اس سے پانسہ پلٹ جائے۔
لیکن صدر ولادی میر پوتن کو راضی کرنا قدرے مشکل لگتا ہے۔ اس بارے میں روس کا صرف یہی کہنا ہے کہ روس بھی مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں شدت پسندی اور عدم استحکام نہیں چاہتا۔ لیکن یوکرین کے واقعات کے بعد روس کے ساتھ مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔جرمن چانسلر انگلیلا مرکل صدر پوتن سے وقفے وقفے سے بات کرتی رہتی ہیں، جب کہ گذشتہ ماہ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری بھی روسی صدر سے ملنے سوچی گئے تھے۔لیبیا میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی کارگر حکومت نہیں ہے جس کی حمایت یا مدد کی جائے۔لیبیا کے مسائل کی وجہ سے انسانی سمگلنگ میں بھی بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہ علاقہ اس وقت حقیقی طور پر کسی کے زیرِ اقتدار نہیں اور اقوام متحدہ کی مفاہمت کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف کوششیں بڑھا کر ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے زیرِ اثر علاقوں کو ایک دوسرے سے غیر منسلک کر کے ان کا ڈھانچہ کمزور کیا جا سکتا ہے تاہم موجودہ سیاسی صورت حال میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…