اسلام آباد(نیوز ڈیسک) روہنگیا میں مقامی حکومت کے مظالم سے تنگ آ کر ایشیائی ملکوں میں پناہ کے متلاشی ہزاروں مسلمانوں کو دولت اسلامیہ “داعش” اپنی صفوں میں بھرتی کرسکتی ہے کیونکہ مسلمان ملکوں نے انہیں اپنے ہاں پناہ دینے سے انکار کر کے “داعش” کے لیے راستے ہموار کردیے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ میانمار کے روھینگیا نسل کے ایک لاکھ باشندے پچھلے کئی سال سے نسلی امتیازپرمبنی مظالم کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد اس وقت انڈونیشیا اور ملائیشیا میں پناہ کی تلاش میں ہے لیکن مقامی حکومتیں انہیں اپنے ہاں پناہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ لوگ “داعش” کا چارہ ثابت ہوسکتے ہیں۔اخبار”نیوزویک” کی رپورٹ کے مطابق اگر روھینگیا کے ستم رسیدہ لاکھوں افراد شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ لگ گئے تو یہ داعش کوایشیائی ملکوں میں کافی حد تک تقویت پہنچا سکتے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ انڈونیشیا سے 700 اور پڑوسی ملک ملائیشیا سے 200 جنگجو دولت اسلامی میں شمولیت کے بعد عراق اور شام جاچکے ہیں۔حال ہی میں سینگاپور کے وزیراعظم لی ھیسن لونگ نےبھی اسی خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا “داعش” کے لیے جنگجو بھرتی کرنے کا ایک بڑا مرکز بن سکتا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم”ہیومن رائیٹس واچ” کے مطابق برما میں روہنگیا نسل کے لاکھوں مسلمانوں کو پچھلے کئی سال سے مقامی بدھ قبائل اور حکومت کی جانب سے وحشیانہ مظالم کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں روہنیگیا مسلمان دوسرے ملکوں میں پناہ کی تلاش میں در بہ در کی ٹھوکرےں کھا رہے ہیں۔ اب چونکہ دوسرے مسلمان ملک روہینگیا کے مظلوم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دینے یا ان کے خلاف جاری مظالم بند کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اس لیے خدشہ ہے لاکھوں کی یہ آبادی داعش میں شامل ہوجائے کیونکہ اس وقت ان مظلوم مسلمانوں کے پاس “داعش” کے سوا اور کوئی جائے امان نہیں ہے۔سینگا پور یونیورسٹی کے تجزیہ نگار جیسمندر سنگھ کا کہنا ہے کہ “داعش” کے حامی اور ہمدردوں نے انٹرنیٹ پرایک مہم چلا رکھی ہے جس میں انہوں نے برما کے ستم رسیدہ مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اور کہیں بھی پناہ کی تلاش کے بجائے شام اور عراق میں سرگرم دولت اسلامی[داعش] میں شمولیت اختیار کریں۔ اگران لوگوں کو اور کہیں پناہ نہیں ملتی تو ان کی بڑی تعداد شدت پسندی کی طرف مائل ہوسکتی ہے۔ داعش خود کو مظلوم مسلمانوں کا سہارا ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس لیے روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے اس کے نعرے پرکشش ثابت ہوسکتے ہیں۔یاد رہے کہ میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ حکومت ملک کی 53 ملین آبادی میں سے 1.3 ملین روہنگیا مسلمانوں کو ریاستی باشندے تسلیم کرنےسے انکاری ہے۔ روہینگیا میں مجموعی طورپر 135 نسلوں کے باشندے قیام پذیرہیں۔ ان میں بد ترین مظالم اور نسلی امتیاز کا سامنا مسلمانوں کوہے۔