اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہوسکتا ہے کہ کیلے کو آپ برسوں سے ایک کیلے کے طور ہی استعمال کر رہے ہوں، اور اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ اسے پھل اور سبزی کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔اگر تو آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں، تو ٹھیک ہی سمجھتے رہے ہیں، مگر کیا آپ کو پتہ ہے کہ کیلا دراصل وہ نہیں ہے، جو آپ کو نظر آ رہا ہے، یہ دراصل ’بیری‘ ہے!۔
پاکستان سے ترکمانستان تک، امریکا سے ایران تک، فلسطین سے کشمیر تک، آسٹریلیا سے انڈونیشیا تک لوگ اسے ایک کیلے کے طور پر کھاتے اور پہنچانتے ہیں، مگر یہ تکنیکی لحاظ سے ’بیری‘ کی ایک نسل ہے، جو خوشقسمتی سے کیلا بن گئی۔ویب آرکائیو میں 1987 شائع میں شائع ہونے والے امریکی خاتون اسکالر جولیا مارٹن کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق کیلا تکنیکی لحاظ سے بیریز کی نسل میں سے ہے۔موسم گرماں کے پھل کے عنوان سے لکھے گئے اس مقالے میں کیلے کی کئی اقسام بتائی گئیں ہیں، جنہیں دنیا بھر میں سبزی اور پھل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ پہلے پہل کیلا جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں ہوا، جس کے بعد یہ شمالی آسٹریلوی خطے میں پہنچا، جس کے بعد یہ تین قبل مسیح صدی میں بحیرہ روم کے خطے میں پہنچا، اور 10 عیسوی صدی تک یہ یورپ پہنچ چکا تھا۔مقالے میں بتایا گیا ہے کہ کھانے کے قابل 100 گرام کیلے میں 65 گرام کیلوریز، 87 گرام پروٹین، 50 ملی گرام آئرن، 25 گرام کاربوہائیڈریٹس اور دیگر اجزاء شامل ہوتے ہیں۔اس مقالے میں بیریز کے بھی کئی اقسام بتائے گئے ہیں، جو بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ دیگر فروٹس کی شکل اختیار کر گئے۔مقالے میں بتایا گیا ہے کہ کیلے میں موجود ہلکے سیاہ نما داغ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کیلا تکنیکی لحاظ سے بیری ہی ہے۔خیال رہے کہ یہ مقالا 1987 میں شائع ہوا، اور ویب آرکائیو پر دنیا بھر کے محققین کے ایسے کروڑوں تحقیقی مقالے موجود ہیں۔