کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک تحقیق کے دوران معلوم ہوا ہے کہ جدید دور کے انسان کے اباؤ اجداد کا تعلق افریقا سے نہیں بلکہ ایشیائی خطے سے تھا۔ ماہرین نے یہ نتائج 1978 میں چین کے صوبے شانژی کے علاقے دالی سے برآمد ہونے والی انسانی کھوپڑی کا ڈی این اے جائزہ لینے کے بعد اخذ کیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ انسانی کھوپڑی 2 لاکھ 60 ہزار سال پرانی ہے اسے Dali Skull کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کھوپڑی انسان کے ارتقا کی نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔
برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، دو لاکھ سال قبل انسانوں کے ایک گروپ نے ایشیا سے یورپ اور ایشیا کو ملانے والے علاقے کی جانب ہجرت کی، اِن ہی علاقوں میں ان میں ایشیائی خدوخال بننا شروع ہوئے۔ یہاں سے یہ لوگ افریقا کی جانب روانہ ہوئے جہاں یہ لوگ مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل گئے۔ ہجرت کرنے والوں اور مقامی آبادی کے ملاپ سے پیدا ہونے والی نسل کی وجہ سے ہی ہومو سیپئنز کا ارتقا عمل میں آیا یعنی کہ جدید انسان کے ڈی این اے میں ایشیائی اور افریقی آباؤ اجداد کے ڈی این اے کی باقیات شامل ہیں۔ کئی ماہرین کی رائے ہے کہ جدید دور کا انسان نے دو لاکھ سال قبل افریقا میں پھلنا پھولنا شروع کیا، اس رائے کی وجہ ان علاقوں سے برآمد ہونے والے فاسلز اور دیگر شواہد تھے۔ جدید انسانوں کے ڈی این اے کے نمونوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب اس واحد گروپ کی نسل میں سے ہیں جو ایک لاکھ 20 ہزار سال قبل افریقا سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری جین میں افریقا میں موجود افراد سے بھی قبل کے انسان کی جین موجود ہے ماسوائے ان کے جنہوں نے یہ جین نینڈرتھال اور دیگر انسانوں کے درمیان ہونے والے ملاپ سے حاصل کی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چین سے برآمد ہونے والی یہ ڈھائی لاکھ سال پرانی کھوپڑی مکمل ہے اور اپنی درست حالت میں ہے۔
1978 میں کھوپڑی ملنے کے بعد 1979 میں ماہرین نے رائے پیش کی تھی کہ ممکنہ طور پر یہ کھوپڑی جدید دور کے انسانوں (ہومو سیپئنز) کی بجائے قدیم دور کے انسانوں ہومو اریکٹس کی ہو سکتی ہے تاہم امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی اور چین کی اکیڈمی آف سائنسز بیجنگ کے ماہرین نے تمام پرانی آرا کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے برآمد ہونے والی کھوپڑی کم و بیش ویسی ہی ہے جیسی 1960 میں مراکش کے علاقے جبل ارحود کے ایک غار سے برآمد ہوئی تھی۔