اسلام آباد(نیوزڈیسک)دہلی کے دو بڑے دفاع تھے‘ سانپ اور ساون۔ دہلی میں ساون کا مہینہ بہت سخت ہوتا تھا‘ مون سون شروع ہوتے ہی آسمان دریا بن جاتا تھا‘ یہ بارش دہلی کے مضافات کو دلدل بنا دیتی تھی اور یوں فوجی گاڑیاں اور گھوڑے مفلوج ہو کر رہ جاتے تھے‘ بارش کے بعد حبس اور ہیضہ دونوں حملہ آور فوج پر حملہ کر دیتے تھے‘ سپاہی وردی اتارنے پر مجبور ہو جاتے تھے لیکن آفت کم نہیں ہوتی تھی‘ اسہال اور قے اس کے بعد اگلی مصیبتیں ہوتی تھیں‘ یہ مصیبتیں ابھی جاری ہوتی تھیں کہ پردیسیوں پر مچھر بھی یلغار کر دیتے تھے اور یوں لشکر ملیریا میں بھی مبتلا ہو جاتا تھا‘ حملہ آور فوج کے جو سپاہی ملیریا سے بچ جاتے تھے وہ کوبرا سانپوں کا نشانہ بن جاتے تھے‘ دہلی کے مضافات میں لاکھوں کروڑوں کوبرا سانپ تھے‘ ہندو سانپ کو دیوتا مانتے ہیں‘ یہ سانپ کو مارتے نہیں تھے چنانچہ دہلی کے مضافات سانپ گھر بن چکے تھے‘ یہ سانپ بھی ملیریا کی طرح تخت کے محافظ تھے‘ یہ حملہ آوروں کی باقی ماندہ فوج کو ڈس لیتے تھے‘ یہ سانپ تیمور کےلئے بھی مسئلہ بنے اور جب 1857ءکی جنگ کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کیا تو یہ ان کےلئے بھی چیلنج بن گئے‘ انگریز سپاہی روز دہلی میں کسی نہ کسی کوبرے کا نشانہ بن جاتے تھے‘ آپ کو آج بھی دہلی کے گورا قبرستان میں ایسے سینکڑوں انگریزوں کی قبریں ملیں گی جن کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہوئی تھی‘ انگریز دہلی کے سانپوں سے عاجز آ گئے لہٰذا انہوں نے ان سے نبٹنے کےلئے ایک دلچسپ سکیم بنائی‘ انہوں نے دہلی کے مضافات میں ”سانپ ماریں اور انعام پائیں“ کا اعلان کر دیا‘ انگریز اسسٹنٹ کمشنر سانپ مارنے والوں کو نقد انعام دیتے تھے‘یہ انعام چند دنوں میں تجارت بن گیا‘ دہلی کے لوگ کوبرا مارتے‘ اس کی لاش ڈنڈے پر لٹکاتے اور اے سی کے دفتر کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور اے سی کا اردلی سانپ گن کر انہیں انعام کی رقم دے دیتا‘ یہ سلسلہ چل پڑا‘ سینکڑوں لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہو گئے‘ دہلی میں سانپ کم ہونے لگے یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آ گیا جب سانپ کے شکاری سارا دن مارے مارے پھرتے لیکن کوئی سانپ ان کے ہتھے نہیں چڑھتا تھا‘ اس صورتحال نے ان لوگوں کو پریشان کر دیا‘ کیوں؟ کیونکہ سانپ کشی ان کا روزگار بن چکا تھا‘ ان لوگوں کو سانپ پکڑنے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا اور دہلی میں سانپ ختم ہوتے جا رہے تھے‘ ان لوگوں نے اس کا ایک دلچسپ حل نکالا‘ سپیروں نے گھروں میں سانپ پالنے شروع کر دیئے‘ یہ گھروں میں سانپ پالتے‘ یہ سانپ جب ”سرکاری سائز“ کے برابر ہو جاتے تو یہ روز ایک سانپ مارتے‘ اس کی لاش لے کر اے سی کے دفتر پہنچتے اور انعام لے کر گھر واپس آ جاتے‘ سپیروں کا روزگار ایک بار پھر چل پڑا مگر یہ راز زیادہ دنوں تک راز نہ رہ سکا‘ انگریزوں کو اس کاروبار کی اطلاع مل گئی‘ وائسرائے نے میٹنگ بلائی اور اس میٹنگ میں سپیروں کو انعام دینے کی سکیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ انگریز سرکار نے ہرکاروں کے ذریعے دہلی کے مضافات میں منادی کرا دی ”کل سے سانپ مارنے والے کسی شخص کو انعام نہیں ملے گا“ یہ اعلان سانپ پکڑنے اور مارنے والوں کے سر پر چٹان بن کر گرا اور وہ لوگ مایوس ہو گئے‘ اس وقت ان لوگوں کے قبضے میں لاکھوں سانپ تھے‘ ان لوگوں نے وہ تمام سانپ مایوسی کے عالم میں کھلے چھوڑ دیئے‘ وہ سانپ دہلی اور اس کے مضافات میں پھیل گئے‘ یہ سانپوں کی نسل کشی کے دن تھے‘ سانپوں نے انڈے بچے دیئے اور یوں دہلی میں انسان کم اور سانپ زیادہ ہو گئے‘ انگریزوں نے تحقیق کی‘ پتہ چلا یہ سانپ انعامی سکیم سے پہلے کے سانپوں سے دس گنا زیادہ ہیں‘ اس صورتحال سے ایک اصطلاح نے جنم لیا‘ وہ اصطلاح تھی ”کوبرا ایفیکٹ“ آج بھی جب کسی برائی کو مارنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں وہ برائی دوگنی ہو جاتی ہے تو اسے ”کوبرا ایفیکٹ“ کہا جاتا ہے۔