نئی دلی (نیوز ڈیسک) بھارتی قوم کے ”باپو“ کہلانے والے موہن داس کرم چند گاندھی کی خفیہ زندگی پر نصف صدی سے زائد عرصہ سے پڑے دبیز پردے اب ایک ایک کرکے اٹھ رہے ہیں اور حقائق جان کر دنیا حیران ہورہی ہے۔
ایک سابقہ بھارتی جج نے گاندھی کو ’بابائے قوم‘ کی بجائے متحدہ بھارت کو توڑنے والا سازشی اور تاج برطانیہ کا چیلا قرار دیا، اور اسی طرح برطانوی مصنف جیڈ ایڈمز کی کتاب میں گاندھی کو نفسانی خیالات سے مغلوب جنسی شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ ایڈمز لکھتے ہیں کہ گاندھی کی عجیب و غریب جنسی زندگی کوئی راز نہ تھی لیکن بھارتی سیاستدانوں نے گاندھی کو ہیرو بنانے کے لئے اس کی پردہ پوشی کی اور اسے ایک نہایت پارسا شخص بنا کر پیش کیا۔
انہوں نے اپنی کتاب میں گاندھی کی شرمناک جنسی زندگی کے درجنوں واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک ناقابل یقین واقعہ اس وقت پیش آیا جب ’عظیم‘ بھارتی رہنما کے والد آخری سانسیں لے رہے تھے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ گاندھی کے والد قریب المرگ تھے اور انہیں والد کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ رہنے کی تاکید کی گئی تھی اور وہ چارو ناچار یہ ذمہ داری سرانجام بھی دے رہے تھے کہ اسی دوران انہیں اپنی اہلیہ کستوربا کی قربت کی شدید طلب محسوس ہوئی۔ ایڈمز بتاتے ہیں کہ گاندھی کے والد جان کنی کی کیفیت میں مبتلا تھے لیکن وہ اپنی نفسانی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہیں چھوڑ کر کستوربا کے پاس پہنچ گئے۔ جب وہ خوش باش ہوکر واپس لوٹے تو ان کے والد دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔
گاندھی اپنے معتقدین کو جنسی بے راہ روی سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کرتے تھے لیکن اپنے پرائیویٹ آشرم پر نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو برہنہ ہوکر اکٹھے غسل کرنے کی ہدایت کرتے تھے۔ ان کے سیکرٹری کی دلکش ہمشیرہ سوشیلا نائر نوعمری سے ہی ان کی قربت میں رہیں۔ جیڈ ایڈمز بتاتے ہیں کہ گاندھی سوشیلا کو اپنے ساتھ سلاتے اور دونوں اکثر اکٹھے غسل کرتے۔ اس ضمن میں گاندھی کا اپنا بیان ہے کہ جب سوشیلا غسل کرتیں تو وہ اپنی آنکھیں سختی سے بند کرلیتے اور انہیں صرف پانی کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ غسل کے کس مرحلے میں ہیں۔
کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ گاندھی نوعمر لڑکیوں میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور تربیت اور دیکھ بھال کے بہانے اکثر کسی نوعمر لڑکی کو اپنے ساتھ رکھتے اور ساتھ سلاتے، اور وقتاً فوقتاً تنہائی میں نوعمر لڑکیوں سے مساج بھی کرواتے۔