برطانوی خاتون کی انسانیت کےلئے قابل تقلید مثال

19  اکتوبر‬‮  2015

لندن(نیوزڈ یسک )سوشل میڈیا کا ہماری زندگی کے معاملات پر کتنا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ اس کی ایک مثال ہے برطانیہ کی ایک ایسی خاتون جس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک اپیل سے متاثر ہو کر ایک اجنبی عورت کو اپنا ایک گردہ عطیہ کر کے انسانیت کی ایک مثال قائم کی ہے۔چھبیس سالہ اسٹیسی تین چھوٹے بچوں کی ماں ہے وہ گردوں کے ایک دائمی مرض میں مبتلا تھی اور گردوں کے فیل ہو جانے کی وجہ سے سخت علیل اور زیادہ چلنے پھرنے سے معذور تھی۔اسٹیسی کے والد کی جانب سے فیس بک پر گردے کے عطیہ کی اپیل کی گئی جس کو پڑھنے کے بعد لوئیس جو خود دو بچوں کی ماں ہیں انھوں نے اسٹیسی کو اپنا ایک گردہ عطیہ کرنے کی پیشکش کی۔اسٹیسی کے والد ڈیرن نے مایوسی کی حالت میں اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کی ایک کوشش کے طور پر یہ فیس بک پر پیغام شائع کیا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو میری بیٹی کی مدد کرنے کے لیے ایک گردہ عطیہ کرنا چاہتا ہے، اسے جتنی جلدی ممکن ہو سکے گردوں کی پیوند کاری کی ضرورت ہے۔اگر اسے گردے کا عطیہ نہیں ملتا تو شاید زندگی بھر اسے ڈائلیسسز کی ضرورت پڑتی اس کے ماں باپ اسٹیسی کے لیے مناسب عطیہ دہندگان نہیں تھے جبکہ عطیہ کے خواہش مند افراد کی فہرست میں اسے اوسطاً تین برس کا انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ خاندان والوں کو ڈر تھا کہ اسٹیسی اتنا طویل انتظار نہیں کر سکتی ہے لیکن یہ اسٹیسی کی خوش بختی تھی کہ اسے لوئیس جیسی نیک دل خاتون کی طرف سے گردہ کا تحفہ مل گیا، جس کے بعد نیو کاسل کے فری مین اسپتال میں گردے کی پیوند کاری کا آپریشن کامیاب رہا۔لوئیس کا کہنا تھا کہ اس روز میں اور میرے شوہر رات کو کھانے کے بعد صوفے پر بیٹھے تھے اور ہم فیس بک دیکھ رہے تھے کہ میری نظر اس اپیل پر پڑی اور میں نے طے کر لیا کہ میں اس لڑکی کی مدد کر سکتی ہوں تاہم 13 ماہ تک مختلف ٹیسٹ مکمل ہونے کے بعد اسٹیسی سے لوئیس کا گردہ میچ کر گیا اور ڈاکٹروں نے لوئیس کو ایک مناسب عطیہ دہندہ قرار دے دیا۔لوئیس نے بتایا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا وہ تمھارے خاندان سے ہے یا دوستوں میں سے ہے لیکن، میں انھیں بتاتی تھی کہ وہ ایک اجنبی لڑکی ہے تو وہ حیران ہو جاتے تھے۔انھوں نے کہا کہ جیسے جیسے آپریشن کا وقت قریب آ رہا تھا مجھے اپنی قربانی سے کچھ ڈر لگ رہا تھا کہ اگر مجھے بے ہوشی کے بعد دوبارہ ہوش نہیں آیا تو میرے بچے اپنی ماں سے محروم ہو سکتے ہیں لیکن پھر میں سوچتی تھی کہ میں یہ قدم ایک تین سالہ چھوٹے بچے کی ماں کو بچانے کے لیے اٹھا رہی ہوں۔اسٹیسی نے ذرائع سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیرت انگیز واقعہ ہے میرے پاس انھیں شکریہ کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کیونکہ کسی کو اپنا ایک عضو تحفہ کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسٹیسی نے کہا کہ مکمل طور پر اجنبی ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ایک برطانوی ٹی وی چینل فائیو پر بدھ کے روز ایک شو میں اسٹیسی اور لوئیس کی کہانی نشر کی جائے گی۔



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…