اسلام آباد (نیوزڈیسک) بھارتی قوم ایشیا کی سپر پاور بننے کیلئے بیتاب ہے۔ ان کا یہ خواب چین اتنے آرام سے تو نہ پورا ہونے دے گا البتہ بھارتیوں کا ”سپر ہیومن“ ہونے کا خواب عنقریب پورا ہوسکتا ہے۔ اس ملک میں آپ کو زندگی کے معمولات کے حوالے سے دلچسپ، غیر معمولی حتیٰ کہ ایسے نظریات بھی دیکھنے یا سننے کو ملتے ہیں کہ جن کے ایجاد کنندہ خود اپنے نظریئے سے لاعلمی پر شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مقبول عام نظریات بھی ہیں جن سے آپ بھی یقیناً واقف ہوں گے اور اگر واقف نہیں تو ذیل میں پڑھ کے بھارتیوں کو جانیئے۔بھارت کی ڈیڑھ ارب کی آبادی آج بھی ڈاکٹر اور انجینیئر کے سوا کسی دوسرے پیشے کو پیشہ نہیں مانتی ہے اور انہیں آج بھی ایسا لگتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان دو میں سے کسی ایک شعبے میں داخلہ نہیں لیتا ہے تو یہ اس کے نالائق ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بھارتیوں کا ایک اور خبط انگریزی بولنا بھی ہے، انہیں ایسا لگتا ہے کہ انگریزی بولنے والے افراد زیادہ ذہین معلوم ہوتے ہیں۔ غالبا یہ یورپی خاکروبوں سے نہیں ملے، وہ بھی انگریزی بولتے ہیں!بھارتی قوم کی اپنے ہی ملک کے جغرافیئے سے لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ انہیں پورے بھارت میں بسنے والے شمالی اور جنوبی بھارتیوں میں تقسیم شدہ دکھائی دیتے ہیں۔ جو خود کو شمالی یا جنوبی بھارت کا نہیں سمجھتا، وہ خود کو خلائی مخلوق سمجھے کیا؟صفائی پسندی کے معاملے میں تو بھارتیوں کا کوئی ثانی ہی نہیں۔ یہ ہر چیز کو ڈھانپ کے رکھتے ہیں۔ اسی کے ماڈل کی گاڑی سے بھی پلاسٹک شیٹس کو ہٹنے نہیں دیتے۔ حتیٰ کہ سیل فون اور ٹی ریموٹس پر موجود حفاظتی کورنگ بھی انہیں اتارنا گوارا نہیں۔ شائد اس طرح انہیں اس دن کی خوشی کا مزہ دوبارہ چکھنے کو ملتا ہے جو ان اشیا کو خرید کے ملی تھی۔اگر کوئی لڑکی یا لڑکا یہ کہتا ہے کہ وہ پارٹی میں جارہا ہے تو اس کا مطلب ناو¿ و نوش کی محفل لیا جاتا ہے۔گریجوایشن پارٹی، برائیڈل شاور جیسی پارٹیز کا بھارتیوں کے نزدیک کوئی تصور نہیں۔مشہور محاورہ ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے،بھارتی اپنی ضرورت کے اعتبار سے اس قدر ایجادات کرتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہی نہیں بلکہ اس کی خالہ پھوپھی اور نانی بھی دکھائی دیتی ہے۔ سڑک کنارے لگے کوڑے کے ڈھیر ہی دیکھ لیجئے۔ جہاں بھارتیوں کو خیال گزرتا ہے کہ اس جگہ کوڑے دان ہونا چاہئے تھا وہ فوری طور پر اس جگہ کوڑا پھینک کے نشانی لگا دیتے ہیں اور پھر اس نشانی کو مضبوط کرنے کیلئے باقی محلے والے بھی حتیٰ المقدور اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور گھر کا کوڑا ڈال کے اس نشانی کو مزید ”پائیدار“ بنا دیتے ہیں۔یوں تو بھارتی اپنی نسل پر بے حد فخر کرتے ہیں لیکن یہ فخر ویسے ہی احساس کمتری میں بدل جاتا ہے جب انہیں بہو کی تلاش ہو۔ بہو ڈھونڈتے ہوئے ان کی نگاہیں گوری چمڑی والی میم اور ”چٹے منڈے“ کو کھوجتی ہیں۔ہر بھارتی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو سمجھتا ہے لیکن غالباً ان کے نزدیک کرپشن صرف سیاستدانوں میں پھیلنے والی کوئی وبا ہے کیونکہ عام زندگی میں وہ اپنے کروانے کیلئے رشوت دینے کو ایک عام معمول سمجھتے ہیں۔یہاں پر چھوٹے بہن بھائی ساری زندگی یہی خواب دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کب وہ اتنے بڑے ہوسکیں کہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کے سامنے اپنے موقف کو ٹھیک ثابت کرسکیں کیونکہ یہاں سمجھداری کا فارمولہ بے حد سادہ ہے جو بہن بھائیوں میں بڑا ہے، وہی زیادہ عقل مند بھی ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں