اسلام آباد( نیوز ڈیسک )موریطانیہ مجموعی طور پر بدترین خشک سالی اور خوراک کی کامیابی کا شکار ہے، اسے دنیا کے انتہائی غریب ممالک میں شامل کیا جاتا ہے تاہم یہاں کے مرد قحط سالی اور خوراک کی کمیابی کی ساری مصیبت خود بکوشی بھگت لیتے ہیں البتہ خواتین اور لڑکیوں کے لئے دنیا جہان کی خوراک کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق یہاں کی 20 فیصد خواتین خوب موٹاپے کی شکار ہیں جبکہ مجموعی طور پر آدھی سے زائد خواتین ضرورت سے زیادہ وزن کی حامل ہیں۔ ان کے برعکس صرف 4 فیصد مرد موٹاپے کا شکار ہیں جبکہ 20 فیصد کا وزن زائد از ضرورت ہے۔
اس رسم کا ایک دلچسپ پہلویہ بھی ہے کہ جو خاتون جس قدر موٹی ہوگی، اسے اسی قدر زیادہ امیر گھرانے کی بیٹی سمجھا جائے گا جبکہ دبلا پن غربت کی علامت قرار پاتا ہے۔ چنانچہ یہاں کی خواتین بھی نہیں چاہتیں کہ ان کی بیٹیوں کو کوئی غریب سمجھے، وہ خوفزدہ ہوتی ہیں کہ ایسا نہ ہو، ان کی بیٹیاں ساری عمر کنواری ہی بیٹھی رہیں۔ چنانچہ یہ مائیں بچیوں کو اونٹ کا دودھ، زیتون کے تیل میں ڈبوئی روٹی اور بکرے کا گوشت خوب استعمال کراتی ہیں۔ ہر لڑکی کو روزانہ 14 ہزار سے 16 ہزار حرارے لینا پڑتے ہیں۔
یاد رہے کہ ماہرین صحت کے مطابق ایک بارہ سالہ لڑکی کے لئے روزانہ 1500 حرارے کافی ہیں جبکہ ایک بالغ مرد باڈی بلڈر 4000 تک حرارے لیتا ہے۔ ایک چھ سالہ بچی کو مجموعی طور پر ایک دن میں اونٹنی کا 20 لیٹر دودھ، 2 کلو باجرہ کی بنائی ہوئی روٹیاں اور 2 کپ مکھن کھانا پڑتا ہے۔ ناشتے کے بعد لڑکیوں کو کیمپ کے اندر قالینوں پر بچھے بستر پر کھایا پیا ہضم کرنا ہوتا ہے، کیونکہ دوپہر کے کھانے میں بھی جہان اور بہت کچھ شامل ہوگا وہاں ”کسکس“ بھی کھانا ہوگا جس میں کھجوروں اور مونگ پھلی کا اضافہ ہوگا۔ہر لڑکی کو تین ماہ تک کیمپ مین رکھا جاتا ہے، کیمپ کی منتظمہ ہر لڑکی کی فیس پندرہ ہزار پاکستانی روپوں کے برابر وصول کرتی ہے۔ جن علاقوں میں بجلی ہوتی ہے نہ ہی کہیں پانی نظر آتا ہے، وہ ایسے کیمپوں کے لئے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ والدین کو یہاں بیٹیاں داخل کرانے کے لئے خاصا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ چھوٹی لڑکیان کیسے اتنی زیادہ مقدار میں ثقیل غذا کھاسکتی ہیں؟ کیمپ کی منتظمہ آمنہ بنت الحسان کہتی ہیں: ”میں بہت سخت ہوں، میں ان لڑکیوں کی بانس کی چھڑی کے ساتھ پٹائی کرتی ہوں، ان کے پاو¿ں کی انگلیوں کو ڈنڈوں کے درمیان دباتی ہوں۔ میں انہیں باقی لڑکیوں سے الگ کرلیتی ہوں اور پھر انہیں سمجھاتی ہوں کہ دبلی پتلی عورتیں کم تر درجے کی ہوتی ہیں“۔ تاہم وہ انکار کرتی ہے کہ وہ لڑکیوں پر ظلم کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”نہیں، نہیں!! یہ خود ان کی بھلائی کے لئے ہے۔ اگر یہ غریب بچیاں ہڈیوں کا ڈھانچہ رہیں گی تو انہیں شوہر کیسے ملے گا“۔
اس رسم کا ایک دوسرا ظالمانہ پہلو وقت سے پہلے شادی کا ہے۔ محض 12 سے 14 برس کی عمر میں یہ موٹی لڑکیاں ایسے لگتی ہیں جیسے اب ان کی شادی نہ ہوئی تو ان کی عمر ڈھل جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پھولتے ہوئے جسم میں موجود دماغ سکڑتا رہتا ہے۔ کیونکہ ایسی بچیوں کے دو ہی کام ہوتے ہیں، کھانا پینا یا پھر سونا۔ اس طرح نشوونما پانے والی لڑکیاں جسمانی طور پر بالغ معلوم ہوتی ہیں لیکن ذہنی طور پر نابالغ۔ آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ ایسی لڑکیاں اچھی بیویاں کیسے بن سکتی ہوں گی۔
شادی کےلئے لڑ کی کا مو ٹا ہونا لازمی ہے
12
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں