کابل(نیوزڈیسک )ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ “، تاہم اس کہاوت کا عملی مظاہرہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہر روز دیکھنے میں آتا ہے، جہاں سینکڑوں نوجوان ہر رات کسی نہ کسی شادی کی جگہ کا پتہ کر لیتے ہیں اور مہمان بن کر پہنچ جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کچھ ایسا ہی نظارہ شفیق اللہ کو اپنی شادی میں دیکھنے کو ملا۔ وہ 600 اضافی مہمانوں کو اپنی شادی میں دیکھ کر حیران رہ رہ گئے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی وہ واقف نہیں تھے۔ان کا کہنا ہے کہ کہ اگر میں ان کو کھانا سے منع کرتا تو اس سے میری بےعزتی ہوتی اور میری شادی کی خوشیاں برباد ہو جاتیں۔کاروں کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ شفیق اللہ نے باورچی کو فوری طور دگنا کھانا تیار کرنے کے لیے کہا۔ اس کے لیے انہیں کئی گنا بل بھی ادا کرنا پڑا۔ چنانچہ ان کی شادی تقریباً تیس لاکھ روپے کی رقم خرچ ہوئی۔کئی ملک ایسے میں جہاں شادی میں شرکت کے لیے دولہا دلہن طرف سے 500 مہمان بھی میسر نہیں آتے۔ تاہم افغانستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اتنے مہمان تو بغیر بلائے ہی وہاں شادیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور افغانستان میں یہ ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے، جہاں شادی کے موقع پر مہمان نوازی کے عزم اور خاندان و برادری کے لیے ایثار کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔مگر افغانستان جہاں بڑی تعداد میں بن بلائے مہمان شادی میں پہنچ جاتے ہیں، اس روایت کی وجہ سے اتنے لوگوں کا کھانے کا انتظام کرنے میں کئی افغانی نوجوان برباد ہو جاتے ہیں۔ وہ شادی کے اخراجات کے لیے قرض لیتے ہیں، جسے ادا کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔شفیق اللہ نے اپنی شادی میں 700 مہمانوں کو دعوت دی تھی۔ اس کے علاوہ دلہن کی جانب سے بھی مہمان شریک تھے۔ مگر شادی میں تقریباً 1300 افراد اکھٹا ہوگئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ مردوں کو انہوں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اتنے مہمانوں کے شادی میں شرکت کے باوجود بھی شفیق اللہ کے کئی دوست ان سے شکایت کرتے ہیں کہ انہوں نے شادی کی دعوت نہیں دی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں