اگر آپ کا ای میل اکائونٹ موجود ہے تو کبھی نہ کبھی آپ کو کسی ’حسینہ‘ کی طرف سے ای میل ضرور موصول ہوئی ہوگی جس میں اس نے بتایا ہوگا کہ وہ کروڑوں کی مالک ہے مگر قانونی وجوہات کی بنا پر فی الوقت یہ رقم حاصل نہیں کرسکتی۔
اگر آپ اس کی مدد کریں تو وہ کچھ عرصے میں اس کثیر رقم کی مالک بن جائے گی جس میں آپ کا بھی حصہ ہوگا۔ سمجھ دار لوگ اس طرح کی ای میلز کو ڈیلیٹ کردیتے ہیں ( ای میل پڑھنے کے بعد پتا نہیں آپ نے کیا ردعمل ظاہر کیا ہوگا ) مگر دنیا میں بے وقوفوں کی کمی نہیں جو اس نوع کی ای میلز بھیجنے والوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ اسٹیو بھی یقیناً ان ہی میں سے ایک ہے۔
تریپن سالہ امریکی شہری تین سال کے دوران اپنی ’ بیوی ‘ کیلی کو ایک لاکھ ڈالر سے زائد بھیج چکا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسٹیو ’کیلی‘ سے کبھی نہیں ملا! اسٹیو کا کہنا ہے وہ اپنی ’ شریک حیات ‘ کی مالی اعانت اس لیے کررہا ہے کہ جلد ہی اسے اپنے آنجہانی والدین کی وراثت کے ڈھائی کروڑ ڈالر ملنے والے ہیں۔ یہ رقم ملتے ہی اس کا شمار بھی دولت مندوں میں ہونے لگے گا۔ خون پسینے کی کمائی والا مقولہ تو آپ نے سنا ہوگا، مگر اسٹیو حقیقتاً اپنا خون فروخت کر کے کیلی کو رقم بھیجتا رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ان دیکھی ’ اہلیہ ‘ سے کتنی محبت کرتا ہے۔
اسٹیو کی کیلی سے ملاقات ، 2012ء میں ایک سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ پر ہوئی تھی۔ دونوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ روز کے بعد کیلی نے اسٹیو سے ’ اظہار محبت ‘ کردیا۔ ادھر، بوڑھے اسٹیو کے دل میں بھی کیوپڈ کا تیر پیوست ہوچکا تھا۔ اس نے بھی کیلی سے جواباً محبت کا اظہارکرنے میں دیر نہیں لگائی۔
کچھ عرصے کے بعد ’ کیلی ‘ نے اسے بتایا کہ اس کے والدین 2012ء میں ایک کار کے حادثے میں چل بسے تھے۔ وہ اس کے لیے وسیع جائیداد چھوڑ گئے ہیں جس کی مالیت ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ مگر قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے وراثت کی اس کے نام منتقلی میں کچھ عرصہ لگے گا اور اس دوران وہ ترکے میں سے ایک پیسا خرچ نہیں کرسکتی۔ چناں چہ اسٹیو نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے رقم بھیجنے لگا۔
چند روز پہلے اسٹیو نے ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں شرکت کی۔ پروگرام کے میزبان ڈاکٹر فِل سے بات چیت کرتے ہوئے اسٹیو نے کہا قانونی طور پر کیلی اور اس کی شادی ہوچکی ہے، لیکن وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا کیلی سے ملے بغیر شادی کیسے ہوگئی؟ شو کے حاضرین کو اسٹیو نے بتایا وہ انتیس ماہ کے دوران کیلی کو ایک لاکھ تین ہزار ڈالر بھیج چکا ہے۔ وہ اکائونٹنٹ کی نوکری کررہا ہے مگر اس رقم کے لیے اس نے کئی بار اپنا خون بھی فروخت کیا ہے۔
اسٹیو نے ڈاکٹر فِل کو بتایا کہ کیلی اس سے ملنے کے لیینارتھ ڈکوٹا سے اوہایو آئی تھی مگر بدقسمتی سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ اسٹیو کی اس بات پر ڈاکٹر فِل کی ٹیم نے جب کیلی کی جانب سے اسے بھیجی گئی ای میل کا آئی پی ایڈریس چیک کیا تو وہ نائجیریا کا ثابت ہوا۔ کیلی نے اپنے ’شوہر‘ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ نارتھ ڈکوٹا کے نرسنگ اسکول میں زیرتربیت رہی ہے۔ ڈاکٹر فِل کے مذکورہ اسکول میں رابطہ کرنے کے بعد کیلی کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر فِل نے جب یہ دونوں باتیں اسٹیو کو بتائیں تو اس کے ردعمل نے حاضرین اور ناظرین کو حیران کردیا۔ اس نے کہا تھا،’’جو کچھ بھی ہے میں کیلی سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ وہ بہت خوب صورت، رحم دل اور پیارکرنے والی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جلد ہی اسے ڈھائی کروڑ ڈالر ملنے والے ہیں۔ اگر میں نے اسے ایک لاکھ ڈالر دیے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کی دولت میں میرا بھی تو حصہ ہوگا!‘‘