ٹوبہ ٹیک سنگھ (آن لائن) پاکستان میں ذہنی امراض میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ، ہرچوتھے گھر میں ایک ذہنی مریض موجود ہے پندرہ سے تیس سال کے افراد میں خودکشیوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے ہمارے مختلف شہروں میں ڈپریشن کی شرح 22 سے 60 فیصد تک ہے ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ نفسیاتی امراض کو ہمیشہ چھپایا جاتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں،
جسمانی عوارض کی طرح یہ بھی امراض ہیں اور انہیں چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ان خیالات کا اظہاٹوبہ ٹیک سنگھ کی مشہور ماہر نفسیات ساجدہ سلطان نے ایک اجلاس کی صدرات کرتے ہوئے کیا ۔۔انہوں نے کہا کہ خاندان میں ایسے فرد کی موجودگی جو کسی ذہنی تکلیف میں مبتلا ہو، پورے گھرانے کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔ پہلے تو ذہنی مسائل کو کوئی بیماری مانا ہی نہیں جاتا اور اگر کسی طریقے سے تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج صرف یہ سوچ کر نہیں کرایا جاتا کہ دنیا والے کیا کہیں گے؟ اور یہی غفلت بالآخر کسی بڑے نقصان کا موجب بن جاتی ہے۔ماہر نفسیات ساجدہ سلطان نے کہا کہ نفسیاتی امراض میں سب سے زیادہ عام اور خطرناک مرض ڈپریشن یعنی افسردگی ہے۔ جو آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں ذہنی مریض موجود ہے اور ان ذہنی مسائل میں مبتلا 25 فیصد افراد ‘ڈپریشن’ کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا شکار خواتین کی تعداد دوگنی ہے۔ماہر نفسیات ساجد ہ سلطان نے کہا کہ ملک میں ریپ جیسے واقعات میں اضافہ ایک تشویس ناک بات ہے ۔ ملک میں انٹر نیٹ پر غیر اخلاقی مواد کی وجہ سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم پر بھجی فوکس کریں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ
ڈپریشن سے بچنے کیلئے نماز کی ادائیگی کریں اور زدیاہ سے زدیاہ با وضو رہیں ، سچ بولیں اور جھو ٹ سے اجتناب کریں ، انہوں نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو موبایل سے دور رکھیں اور بچوں کو فزیکل گیمز کروائیں تاکہ بچوں کی صحت بہتر ہو سکے انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو رات جلدی سونا چاہیے اور
آٹھ گھنٹے اپنی نیند پوری کرنی چاہیے ۔انہوں نے مزید کہا کہڈپریشن ایک قابل علاج مرض ہے۔ 80سے 90فیصد مریض مناسب علاج اور معیاری کونسلنگ سے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔مریضوں کو ایک متوازن ٹائم ٹیبل بنا کر دیں، جس میں سونے جاگنے، کھانے پینے اور مصروف رہنے کے اوقات شامل ہوں۔