کراچی (این این آئی) چھٹی سالانہ ذیابیطس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی مقررین نے ذیابیطس کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہے جو کہ انسانی صحت کے ساتھ ساتھ اس کے معمولاتِ زندگی اور معاشی حالات کو بھی متاثر کر تا ہے۔ ممتاز دوا ساز ادارے صنوفی پاکستان اور
ذیابیطس ایسو سی ایشن آف پاکستان (DAP) کی جانب سے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں منعقدہ کانفرنس کے مقررین میں برطانیہ سے آنے والے پروفیسر جیری رے مین، پروفیسررھس ولیمز اور پروفیسر عبد الصمد شیرا شامل تھے۔ مقررین نے اپنے خطاب میں بتایا کہ پاکستان میں بیس سال یا اس سے بڑی عمرکا ہر چوتھا فرد ٹائپ 1ذیابیطس کا شکار ہے۔ ذیابیطس کے باعث پیروں کو لاحق ہونے والی بیماری کے بارے میں بتاتے ہوئے پروفیسر جیری رے مین نے بتایا، ’ذیابیطس کے شکار مریضوں کے خون میں شوگر کی زائد مقدار کے باعث پیروں اور دیگر بیرونی اعضاء میں محسوس کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مرض کی بروقت تشخیص کے لیے پیروں کا باقاعدگی سے مکمل طبی معائنہ ضروری ہے جس سے فُٹ السر جیسے عوارض سے تحفظ ممکن ہو سکتا ہے‘۔ ذیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور انٹرنیشنل ڈایابیٹز فیڈریشن کے اعزازی صدر پروفیسر عبد الصمد شیرا نے ایک صحت مند طرزِ زندگی اپنانے اور ذیابیطس کے باقاعدگی سے معائنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ذیابیطس ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل ڈایابیٹز فیڈریشن کی ہدایت ’کم کھائیں اور زیادہ چلیں‘ پر سنجیدگی سے عمل پر بھی زور دیا۔ پروفیسر عبد الصمد نے کہا، ’والدین پانچ سال کی عمر سے ہی بچوں کو فاسٹ فوڈ اور سوڈا مشروبات سے پرہیز کرانا شروع کردیں۔ یہ وزن میں اضافے کا سبب ہیں اور زائد وزن اور موٹاپا ٹائپ 2 ذیابیطس کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ اسکول کی سطح سے ہی ذیابیطس کی تشخیص اور علاج کے لیے قومی صحت پالیسی میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ بروقت تشخیص اور فوری علاج اس بیماری کے باعث لاحق ہونے والی پیچیدگیوں سے بہتر تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔‘