امریکا(مانیٹرنگ ڈیسک) ذیابیطس اس وقت پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والا عارضہ ہے اور کروڑوں افراد اس کے شکار ہیں۔ ذیابیطس کے شکار افراد میں مناسب مقدار میں انسولین بن نہیں پاتی یا جسم اسے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ عام طور پر ذیابیطس ٹائپ
2 کا مرض طرز زندگی کی مخصوص عادات کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بلڈ شوگر لیول طویل عرصے کے لیے بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں دیگر طبی مسائل جیسے امراض قلب وغیرہ کا خطرہ بڑھتا ہے۔ ذیابیطس کے نتیجے میں لاحق ہونے والی بیماریاں اس عارضے کا ابھی تک کوئی مکمل علاج تو موجود نہیں مگر چند غذائی عادات اور طرز زندگی میں تبدیلیوں سے اسے کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے۔ اگر غذا کی بات کی جائے تو پاکستان میں چاول اور آلو کا استعمال کافی زیادہ ہوتا ہے اور یہ دونوں کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذائیں ہیں کیونکہ ان میں موجود نشاستہ کو بلڈشوگر لیول بڑھانے کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ مگر کیا واقعی یہ بات درست ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عام افراد کے لیے کسی بھی وقت کی غذا ہو، پلیٹ میں موجود خوراک کا ایک چوتھائی حصہ نشاستہ پر مشتمل ہونا چاہئے جو کہ چاول، روٹی یا آلو سے حاصل ہوسکتا ہے۔ مگر ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے کسی بھی غذا میں موجود ایک جز پر توجہ دینا بہت ضروری ہے جسے گلیسمیک انڈیکس (جی آئی) کہا جاتا ہے۔ جی آئی ایک پیمانہ ہے کہ جو بتاتا ہے کہ کاربوہائیڈریٹ یا نشاستہ دار غذا کا کتنا حصہ کھانے کے بعد اس میں موجود مٹھاس (گلوکوز) مخصوص وقت میں خون میں جذب ہوسکتی ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ امریکن ڈائیبیٹس ایسوسی ایشن کے مطابق نشاستہ دار غذائیں جیسے چاول اور آلو صحت مند غذائی عادات کا حصہ ہوسکتی ہیں مگر ان کی مقدار کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تو ذیابیطس کے مریض سفید یا براﺅن چاول اور آلو کھا سکتے ہیں مگر اعتدال کنجی ہے اور ہمیشہ ڈاکٹر کے مشورے سے اسے کھانے کی عادت بنائیں۔ یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔