کراچی (این این آئی)ایسی مصنوعات جن میں بے دھواں تمباکو قسم استعمال کی جاتی ہے، پاکستان میں منہ، سر اور گردن کے کینسر کی اہم وجہ ہیں تاہم ان کے استعمال کے لئے کوئی ضوابط موجود نہیں ہیں اور یہ ٹیکس سے مستثنیٰ بھی ہیں ۔آغا خان یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے ایک جامع تحقیق کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد بے دھواں تمباکو کے استعمال سے ہونے والے خطرات کی جانچ اور ان کے حل کی تلاش ہے۔
آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر جاوید خان خطے میں بے دھواں تمباکو کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقایسٹرامیں پاکستان کے نمائندہ ہیں۔ پراجیکٹ ایسٹرا(ایڈریسنگ اسموک لیس ٹوبیکو اینڈ بلڈنگ ریسرچ کپیسٹی ان ساوتھ ایشیا)سے مراد ہے بے دھواں تمباکو کے مسئلے سے نمٹنا اور جنوبی ایشیا میں تحقیق کاروں کی صلاحیت سازی۔ ڈاکٹر جاوید نے اس حوالے کہ کہ،چھالیہ کے چار پیکٹ ایک روپے میں عام طور پر دستیاب ہیں اور بیشتر افراد کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بے ضرر اشیا ہیں۔انھوں نے مزید کہا،عام طور پر سگریٹ کے خلاف مہم ترک تمباکو نوشی کی تمام تر توجہ کا مرکز ہوتی ہے جبکہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں 300 ملین سے زائد افراد کسی نہ کسی قسم کا بے دھواں تمباکو استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے 85 فیصد افراد جنوبی ایشیائی ممالک مثلا پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ہیں۔ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق بے دھواں تمباکو کا استعمال منہ کے کینسر کی ایک بنیادی وجہ ہے جو پاکستان میں پائی جانے والی کینسر اقسام میں دوسرے نمبر پر ہے۔اپراجیکٹ ایسٹرا کے لیے برطانیہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ نے مالی معاونت فراہم کی ہے۔ تحقیق کے سربراہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک کے ڈاکٹر کامران صدیقی ہیں۔ اس تحقیق کے لیے پاکستان کی آغا خان یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے علاوہ ہندوستان کے مولانا آزاد میڈیکل کالج اور بنگلہ دیش کی یونیورسٹی آف ڈھا کہ نے اشتراک کیا ہے۔