اسلام آباد(ویب ڈیسک) جنوبی امریکی ملک ایكواڈور میں چھ ماہ کے ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ ایک انڈا کھانے سے مناسب غذا کی کمی کے شکار بچے بھی ممکنہ طور پر معمول کا قد حاصل کر سکتے ہیں۔ خواہ یہ انڈے ہاف فرائی ہوں، ابلے ہوئے ہوں، تلے ہوئے ہوں یا آملیٹ کی شکل میں ہوں ان سے بچوں کو
جسمانی نشوونما میں مدد مل سکتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بچوں میں جسمانی نشوونما کا یہ ایک سستا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ایک قسم کی خوراک پر زندگی ممکن ہے؟ قحط زدہ زندگی کے روپ انڈا یا آملیٹ لانے پر سکول سے نکالنے کا فرمان یہ تحقیق ’پیڈیاٹرکس‘ نامی بین الاقوامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ بچوں کے پہلے دو سال ان کی جسمانی نشو نما کے لیے کافی اہم ہوتے ہیں۔ غذائیت کی کمی بچوں کی جسمانی افزائش میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچپن کے انفیکشن اور بیماریاں بھی اس کا سبب ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں پانچ سال تک کی عمر والے ساڑھے پندرہ کروڑ بچوں کی جتنی لمبائی ہونا چاہیے وہ اس سے بہت کم ہے۔ ان میں زیادہ تر غریب ممالک کے بچے ہیں۔ شعبۂ صحت سے منسلک ماہرین اس کا کوئی حل نکالنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ لورا اينوٹی اوران کے ساتھیوں نے ایكواڈور کے دیہی پہاڑی علاقے میں ایک تجربہ کیا ہے۔ یہاں چھ سے سات ماہ کے بچوں کو انڈے کھانے کے لیے دیے گئے۔ اس تجربے میں 160 بچوں کو شامل کیا گیا جن میں سے نصف بچوں کو چھ ماہ تک روزانہ ایک انڈا کھلایا گیا۔ پھر ان بچوں کے جسمانی نشوونما کا موازنہ باقی کے بچوں سے کیا گیا۔ محققین بچوں کے گھر ہر ہفتے جاتے اور یہ دیکھتے کہ بچوں کو پریشانی تو نہیں ہے۔ کہیں وہ انڈے سے ہونے والی الرجی کا شکار تو نہیں۔ اس مطالعے میں بات سامنے آئی کہ انڈے کھانے والے بچوں کا جسمانی نشوونما بہتر
رہا۔ اس تحقیقی مطالعے کی سربراہ لورا نے کہا: ’ہم لوگ حیران ہیں کہ یہ اتنا مؤثر ثابت ہوا۔ یہ اپنے آپ میں کتنا اچھا ہے کیونکہ روزانہ ایک انڈے کا خرچ برداشت کرنا بہت مشکل نہیں ہے۔ اس کی دستیابی بھی بہت آسان ہے۔ جہاں غذائیت کی کمی کا مسئلہ ہے وہاں یہ طریقہ کار بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔‘ لور نے کہا کہ انڈے بچوں کے چھوٹے پیٹ کے لیے بہترین غذا ہے۔
انھوں نے کہا کہ انڈا غذائی اجزاء کا مجموعہ ہے اور یہ اپنے آپ میں کافی اہم ہے۔ رائل کالج آف پيڈياٹركس اینڈ چائلڈ ہیلتھ میں پروفیسر میری فیوٹرل نے اسے ’حیران کن‘ تحقیق قرار دیا۔ انھوں نے کہا: ’یہ حیران کن اس لیے ہے کہ اس پر زیادہ ریسرچ نہیں ہوئی ہے۔ والدین اس عمر میں بچوں کو انڈے نہیں دیتے۔ والدین انڈوں سے ہونے والی الرجی سے ڈرتے ہیں۔‘