ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان میں 70 لاکھ افراد کو ذیابیطس کا خدشہ

datetime 9  ‬‮نومبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ذیابیطس کا مرض دہائیوں سے موجود ہے اور اس پر قابو پانے کی کوششیں بھی ناپید ہیں۔ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 70 لاکھ افراد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد اس مرض میں مبتلا ہونے کے دہانے پر ہیں اگر احتیاطی

تدابیر نہ اپنائی گئیں۔ عالمی ادارہ صحت اور ذیابیطس پر نظر رکھے ہوئےدیگر عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام رہا تو 2040 تک ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ ہو جائے گی۔ ڈاکٹر عباس حیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ذیابیطس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عباس حیات نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ذیابیطس ایک ایسی خاموش بیماری ہے جو انسانی جسم کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ سرکاری سطح پر آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس بیماری کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ ‘حکومت تو ان اشتہارات اور پروگراموں کو بند نہیں کر رہی ہے جس میں ذیابیطس کے علاج کے بارے میں غلط معلومات دی جاتی ہیں۔ حکومت نے اگر کچھ اور نہیں کرنا تو اس قسم کے غلط اشتہارات اور پروگراموں کو بند کر کے عوام پر بڑا احسان کر سکتی ہے۔’ ‘ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف ذیابیطس کے عالمی دن پر ایک واک کا انتظام کر کے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ حکومت کو اس بیماری سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہو گا۔’ انھوں نے بتایا کہ یہ بے حد ضروری ہے کہ ذیابیطس کی بروقت تشخیص کی جائے اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔ ‘دو

طرح کی ذیابیطس ہیں۔ ایک وہ جو بچپن سے ہی ہو جاتی ہے اور دوسری جو تقریباً 40 سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ دوسری قسم کی ذیابیطس عام طور پر خوراک میں تبدیلی، دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں لوگوں کی نقل مکانی جیسی وجوہات کے باعث ہوتی ہے۔’ ڈاکٹر سہیل احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس سے بچاؤ کے لیے آگاہی کی بے حد ضرورت ہے۔ ‘ہماری نوجوان نسل کو خاص طور پر آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ اس مرض

کے ہونے کی ایک بڑی وجہ ہمارا لائف سٹائل ہے، کیا خوراک کھاتے ہیں اور کیا ہم معیاری خوراک کھا رہے ہیں یا نہیں۔’ انھوں نے کہا کہ جب تک سرکاری سطح پر اس بیماری سے بچاؤ کی آگاہی نہیں کی جاتی تو ذیابیطس کے مریضوں میں اضافے کو روکنا مشکل ہی نہیں بلہ ناممکن ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس سے بچاؤ کے حوالے سے کسی قسم کی آپریشنل پالیسی یا سٹریٹیجی موجود نہیں ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…