ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کینسر کے مرض کی بڑی وجہ ماحولیاتی عوامل اور طرز زندگی بھی ہے، تحقیق

datetime 19  دسمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیویارک(نیوز ڈیسک) جدید ٹیکنالوجی اور شاہانہ طرززندگی نے انسان کو آسائش اورسہولتیں تو فراہم کی ہیں لیکن اس نے انسانی صحت کو بری طرح متاثر بھی کیا ہے اور آئے دن ہونے والی تحقیق میں بیماریوں کے دیگر اسباب کے ساتھ طرز زندگی کو بھی ایک وجہ قرار دیا جاتا رہا ہے جب کہ اب ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کینسر کا مرض لاحق ہونے کے پیچھے ماحولیاتی عوامل اور طرز زندگی زیادہ کارفرما ہیں۔امریکا میں رواں سال کے آغازمیں کی گئی تحقیق کے اس دعوے کے بعد کہ 2 تہائی کینسروں کی اقسام کے پیچھے بیرونی عوامل مثلاً تمباکو نوشی کے بجائے قسمت کا دخل زیادہ ہے، سائنس دانوں میں ایک بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ سائنسی جریدے جرنل نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں 4 مختلف زاویوں کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ 10 سے 30 فیصد کینسروں کی وجہ یا تو جسم کا قدرتی نظام کا طریقہ ہے یعنی قسمت ہے یا پھر انسانی طرز زندگی، جب کہ کئی ماہرین نے اس تجزیئے کو بڑی حد تک قائل کرنے والا قرار دے دیا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کینسر کا مرض جسم کے اسٹیم سیلز میں پیدا ہونے والی خرابی اور بے قابو تقسیم کے باعث ہوتا ہے اور اس کے پیچھے اندرونی عوامل ہو سکتے ہیں جو جسمانی نظام اور اس کی فعالیت کا حصہ ہیں، مثلاً اسٹیم سیل سے نئے سیل بننے کے عمل کے دوران تبدیلیاں عمل میں آتی ہیں جنہیں میوٹیشن یا تقلیب کہا جاتا ہے، اس کی دوسری وجہ بیرونی عوامل بھی ہوسکتے ہیں، جیسے تمباکو نوشی، الٹرا وائلٹ تابکاری اور دیگر کئی ایسی وجوہات جن کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔امریکی شہر نیویارک میں واقع سٹونی ب±روک کینسر سینٹر کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لیے اسے مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں کمپیوٹر ماڈلنگ، لوگوں اور مریضوں کے بارے میں حاصل کردہ معلومات اور جینیاتی تحقیق شامل ہیں جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کینسر کا مرض لاحق ہونے کے پیچھے 70 سے 90 فیصد بیرونی عوامل پائے گئے ہیں۔ اسٹونی بروک کے ڈائریکٹرکے مطابق کینسر کے مرض میں بیرونی عوامل بڑا کردار ادا کرتے ہیں اس لیے لوگ بدقسمتی کا بہانہ نہیں بنا سکتے جب کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ تمباکو نوشی کریں اور کہیں کہ انہیں کینسر ہونے کے پیچھے ان بدقسمتی کا عمل دخل ہے۔برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں اطلاقی اعداد و شمار (اپلائیڈ اسٹیٹسٹکس) کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر قائل کرنے کے لیے بڑے اچھے ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کینسر کی کئی اقسام کے لاحق ہونے کے پیچھے بیرونی عوامل کا بڑی حد تک عمل دخل ہوتا ہے جن میں عام طور پر پائے جانے والی کئی اقسام شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ اگر کوئی شخص اثر انداز ہونے والے اہم بیرونی عوامل کی بہت زیادہ زد میں آتا ہے تو یہ یقینی تو نہیں کہ اسے کینسر ہو جائے گا تاہم پھر بھی بہرحال امکانات موجود رہتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ اس مرض کو سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے ہمیں قسمت کی بجائے بیرونی عوامل اور طرز زندگی کا جائزہ لینا ہوگا اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…