کراچی (این این آئی)کراچی میں گزشتہ جون جیسی گرمی پڑنے کی خبروں نے صرف اس کے شہریوں کو ہی نہیں پورے ملک کی عوام اور متعلقہ اداروں کو الرٹ کر دیا ہے۔ ان خبروں کے ساتھ ہی وہ رپورٹس بھی اچانک بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہیں جن میں باربار خبردار کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے سب سے غیر محفوظ ممالک میں شامل ہے. لہذا, فوری طور پر اس کا تدارک ہونا چاہئے۔ عالمی تھنک ٹینک ’جرمن واچ‘ نے رواں ماہ جاری کردہ اپنے تازہ ترین ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس‘ میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے 10 سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں شمار کیا تھا۔ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ اوزون کی تہہ میں پڑنے والے سوراخوں کے بڑھنے سے ہو رہا ہے اور اس میں ’عام گھرانوں میں استعمال ہونے والے کچھ آلات بھی شامل ہیں۔ شاید بہت کم پاکستانی جانتے ہوں کہ اس وقت اوزون کو نقصان پہنچانے میں عام گھرانے اور ان میں استعمال ہونے والے کچھ جدید آلات بھی برابر کے شریک ہیں۔ وہ اس طرح کہ ریفریجریٹرز اور ایئرکنڈیشنز اب تقریباً ہر چوتھے یا پانچویں گھر اور دفتر میں استعمال ہو رہا ہے۔ ان جدید آلات میں ’کلوروفل کاربن‘ استعمال ہوتی ہے جو اوزون کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ موسمیاتی سائنسدان اور سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرقمر زمان چوہدری کے مطابق کاربن گیس، خاص کر ایئر کنڈیشنز اور ریفریجریٹر میں استعمال ہونے والی کلورو فل کاربن کے بے تحاشہ استعمال سے اوزن کی تہہ میں بڑے پیمانے پر چھید ہوگئے ہیں جس کے باعث سورج کی حدت میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے، سورج کی مضر شعاعیں یعنی الٹرا وائلٹ ریڈیشن سے جلد کے کینسر جیسے موذی مرض نے جنم لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی دن برائے تحفظ اوزون 1995ءسے ہر سال 16ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی مختلف سیمینارز بھی منعقد کراتی رہی ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ایک سیمینار اسلام آباد میں ہوا جس میں ماہرین نے اوزون کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اوزن کی تہہ سورج کی روشنی کے زمین اور اس پر بسنے والی انسانوں اور حیوانوں پر مرتب ہونے والے مضر اثرات سے بچاتی ہے۔ لہذا ہر لمحہ اس کا تحفظ لازمی ہے۔