-
گدڑی میں لعل پلتے ہیں ،کا محاورہ تو آپ نے سنا ہو گا لیکن اسکی عملی صورت کم ہی دیکھی ہو گی ۔ڈیرہ غازی خان کا یہ سائیکل کاریگر اسکی چلتی پھرتی مثال ہے جس نے وہ علمی کارنامہ سرانجام دیا ہے جو رہتی دنیا تک اہل علم کی خدمت کرتا رہے گا
21 فروری وہ تاریخ ہے جب دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے یہ دن 21 فروری کو 1952 میں ڈھاکہ میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ان طلبا کی یاد میں منانا شروع کیا تھا جنھوں نے بنگالی کو نظرانداز کر کے صرف اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے پر احتجاج کیا تھا۔
مادری زبان کے اس تنازعے نے پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کی تخلیق میں بھی اہم کردار ادا کیا لیکن جو پاکستان اس تقسیم کے نتیجے میں بچا وہاں آج بھی مختلف مادری زبانیں بولنے والوں کی محرومیوں اور اِن کے متعلق سرکاری سردمُہری، دونوں میں ہی کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ڈیرہ غازی خان میں ’سرائیکستان ٹائر ہاؤس‘ کے نام سے ایک دُکان ہے۔ یہ نام لِسانی شناخت پر مبنی جِدوجُہد کی ترجمانی کرتا ہے جو سرائیکی بولنے والے ایک الگ صوبے کے لیے کر رہے ہیں۔
اس دکان میں دو دہائیوں سے نہ صرف ٹائر بِک رہے ہیں، پنکچر لگ رہے ہیں بلکہ سرائیکی الفاظ کا مجموعہ بھی ترتیب پا رہا ہے۔
اکبر مخمور اپنی سرائیکستان ٹائر شاپ میں نہ صرف روزی کما رہے ہیں بلکہ یہیں بیٹھے قلم چلا کر سرائیکی کی تاریخ کی سب سے بڑی لُغت لکھنے کا خواب بھی پورا کر رہے ہیں۔
اکبر بتاتے ہیں کہ اپنی مادری زبان کی لُغت لکھنے کا جنون 1983 میں پیدا ہوا جب وہ سعودی عرب میں ٹیکسی چلاتے تھے۔
’وہاں میں نے ایک اخبار میں پڑھا تھا کہ اسرائیل نے 50 دانشور اور اہلِ زبان اور اُس وقت اُن کی 50 لاکھ کی کرنسی مختص کی تھی عبرانی زبان کو زندہ کرنے کے لیے۔ میں نے سوچا کہ ہماری زبان بھی تو آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔‘
تب سے اکبر مخمور نے اپنی مادری زبان کو زندہ رکھنے میں کردار ادا کرنے کی ٹھان لی۔ ٹیکسی میں ہی کاپی اور قلم رکھ لیے اور فرصت کے لمحوں میں سرائیکی الفاظ ذخیرہ کرنے لگے۔
1995 میں وطن واپسی ہوئی تو ٹائر شاپ بنائی کیونکہ اِس کاروبار میں فرصت کے لمحے زیادہ ملتے تھے۔
32 سال میں اُنہوں نے سوا لاکھ سے زائد سرائیکی الفاظ، اصلاحات، محاورے اور اُن کے ماخذ وغیرہ لِکھ لیے ہیں جنہیں اردو اور سرائیکی معنی سمیت درجنوں رجسٹروں میں محفوظ کیا ہے۔
سرائیکی کے صفِ اوّل کے ادیبوں میں شمار ہونے والے شوکت مُغل، اکبر مخمور کے مجموعے کو ’لُغت کے زُمرے‘ میں تو قرار دیتے ہیں لیکن لُغت نویسی کے پیشہ ورانہ لوازمات پورے کرنے پر بھی زور دیتے ہیں۔
’اِس کے لیے ایک ٹیم، ایک ادارہ بہت ضروری ہے۔ اِنہوں نے جو کام کیا ہے، ذاتی طور پر ایک فرد کی حیثیت سے کیا ہے۔ ظاہر ہے، فرد کا کام اور ادارے کا کام اور بہت سارے لوگوں کا مل کر جو کام ہو گا، اُس کی نوعیت مختلف ہو جائے گی۔‘
جنوبی پنجاب میں اکثریتی آبادی کی زبان سرائیکی کی پہلی لُغت مظفر گڑھ کے انگریز کمشنر ای او برائن نے 19ویں صدی کے اختتام پر لکھی۔
سعداللہ کھیترانی کی وڈی (بڑی) سرائیکی لُغت سب سے بڑی اور جدید قرار دی جاتی ہے جس میں شوکت مُغل کے مطابق 50000 کے لگ بھگ الفاظ ہیں۔
اکبر مخمور نے سرائیکی کے متروک اور نادر الفاظ کو یکجا کرنے کے لیے دور دراز کے سفر اور تحقیق میں ذاتی اخراجات کیے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا مجموعہ باضابطہ سرائیکی لُغت کے طور پر شائع ہو۔
لیکن شوکت مُغل کو یہ خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا: ’حکومت چھاپے، علمی ادارہ چھاپے جن کا مقصد علم کی اشاعت ہو تو شایدیہ ہو جائے۔ کوئی کمرشل ادارہ لاکھوں روپے خرچ کرکے اِسے چھاپنے پرراضی نہیں ہو گا۔ وہ یہ پہلے سوچتے ہیں کہ بِکے گی کیسے؟ رقم کہاں سے واپس آئے گی؟‘
اُن کے بقول زبان کی ترویج و تحفظ کے لیے اردو، پنجابی اور سندھی کی طرز پر، سرائیکی سمیت پشتو اور بلوچی زبانوں کے سرکاری نگراں ادارے موجود نہیں۔
اکبر مخمور کو ملتان کی زکریا یونیورسٹی کی طرف سے اشاعت کی پیشکش بھی ہوئی جو اُنہوں نے ٹُھکرا دی۔
’وہ کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی پروفیسر اِس میں شریک نہیں ہو گا تو ہمیں فنڈ نہیں ملے گا۔ لہذٰا کسی نہ کسی کو آپ کے ساتھ شامل کرنا پڑے گا۔ دوسری بات یہ تھی کہ آپ کو رائلٹی بھی نہیں دیں گے۔ تیسری بات یہ تھی کہ یہ یونیورسٹی کے حقوق ہوں گے۔ آپ اِس کے حقوق حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ یونیورسٹی کی ملکیت ہو جائے گی۔‘
دس جماعتیں پاس اکبر مخمور پروفیسر تو نہیں بن سکتے البتہ ڈیرہ غازی خان کے کالجوں میں سرائیکی زبان پر اعزازی لیکچر کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں۔
شوکت مُغل مشورہ دیتے ہیں کہ ’اکبر مخمور کو جب ہی مانا جائے گا جب اُن کا کام چھپے گا۔ میں نے اُنہیں کہا ہے کہ کوئی نہیں چھاپے گا۔ آپ 50 یا 100 دوست اِکٹھے ہو جائیں، پیسے اکھٹے کرکے چھاپ دیں۔‘
سرکاری سرپرستی حاصل کرنے کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد اکبر مخمور نے ایک کمپیوٹر خرید کر اپنا دکان پر رکھ لیا ہے جس پر کام کے لیے ایک جزوقتی ملازم بھی ہے جس کی ماہانہ تنخواہ میں دوست احباب بھی حصہ ڈالتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ’آ‘ سے شروع ہونے والے الفاظ کی تدوین 300 صفحات پر مکمل ہو چکی ہے اور پوری لُغت کی تدوین میں کئی ماہ اور ہزاروں صفحات لگ سکتے ہیں۔
اکبر مخمور کی کوشش ہے کہ سرائیکی زبان کے منفرد مجموعے کو صاف حالت میں لے آئیں جس کے بعد ہی باضابطہ طور پر لُغت کی اشاعت کا مرحلہ آئے گا۔
اکبر کی اُمید تو ہے کہ وہ یہ کام پورا کر پائیں گے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’ہم پاکستانی مردہ پرست قوم ہیں۔ شاید میرے بعد بھی کسی کو خیال آ ہی جائے۔‘