ممبئی (این این آئی)بولی وڈ اداکار اجے دیوگن ہمیشہ ہی خواتین کے حقوق کے لیے بات کرتے نظر آتے ہیں تاہم اپنے ایک نئے انٹرویو میں اداکار نے ان کے سپورٹ میں بھی بیان جاری کردیا جن پر خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا جاچکا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں اداکار نے دنیا بھر میں
بڑھتی ہوئی ’’می ٹو‘‘ مہم اور ایک ایسے اداکار کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے بات کی جن پر خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا۔اداکار کا کہنا تھا کہ کسی پر الزام لگانے اور اس پر الزام ثابت ہونے، ان دونوں باتوں میں فرق ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ بالکل کام نہیں کرنا چاہیے جن پر لگا الزام ثابت ہوچکا ہے، لیکن جن پر لگا الزام ابھی ثابت نہیں ہوا، ہم ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتے، ان کے خاندان کا کیا ہوگا؟ میں ایک ایسے شخص کو جاننا ہوں جن پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا اور ان کی بیٹی اس حد تک صدمے کا شکار ہوگئی کہ اس نے کھانا پینا اور سکول جانا تک چھوڑ دیا۔یاد رہے کہ بولی وڈ اداکار آلوک ناتھ پر بھی خواتین نے ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا اور آلوک ناتھ پر ان الزامات کے بعد اجے دیوگن کو اس وقت تنازعات کا سامنا کرنا پڑا جب وہ آلوک کے ساتھ اپنی فلم ’’دے دے پیار دے‘‘ میں کام کررہے تھے۔50 سالہ اجے دیوگن کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ جب اس می ٹو مہم کا آغاز ہوا، اس وقت میں نے اور میری پوری ٹیم اور انڈسٹری میں موجود میرے ساتھیوں نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ ورک پلیس پر موجود تمام خواتین کا احترام کرتے ہیں اور ہمیشہ کریں گے اور ان کے ساتھ ہونے والی کسی ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے اور آج بھی میرے اس فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے مزید کہا کہ آلوک ناتھ کو فلم سے ہٹانے کا فیصلہ میں اکیلے نہیں کرسکتا تھا، اس معاملے میں فلم کی پوری ٹیم فیصلہ کرتی ہے، میں دوبارہ سے ایک اداکار کو تبدیل کرکے پوری شوٹنگ دوبارہ نہیں کراسکتا تھا، اس کے لیے مزید بجٹ کی ضرورت پڑتی اور اس کا بھی میں فیصلہ نہیں لے سکتا، یہ فیصلہ فلم ساز کے ہاتھوں میں تھا۔خیال رہے کہ بھارت میں می ٹو مہم کا آغاز اداکارہ تنوشری دتہ نے کیا تھا جب انہوں نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں معروف بھارتی اداکار نانا پاٹیکر پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔