اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے اپنے آج کے کالم میں لکھا ہے کہ ۔۔۔کوئی مانے یا نہ مانے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کو صرف مظلومینِ کشمیر نے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ستم زدہ مسلمانوں نے خوب سراہا ہے۔عمران خان سے کچھ دیر پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی جنرل اسمبلی میں تقریر کی۔
مودی کا لہجہ انتہائی بناوٹی اور معذرت خواہانہ تھا جسے بے ذائقہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ عمران خان کا لہجہ جارحانہ بھی تھا اور ناصحانہ بھی۔اُن کی گرمیٔ گفتار میں قصہ سازشِ اغیار کا دکھ تھا۔ یہ ویسا ہی دکھ تھا جس کا بہت تلخ لہجے میں ایک دفعہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اقوام متحدہ میں اظہار کیا تھا اور شاید اسی لئے کچھ اہلِ فکر کو عمران خان کی تقریر میں بھٹو صاحب کی تقریر کا رنگ نظر آیا لیکن بھٹو صاحب کے نام لیوائوں کو یہ گستاخی پسند نہیں آئی بلکہ اُن کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے یہ زناٹے دار بیان داغ دیا کہ عمران خان اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے میں ناکام رہے، تاہم مظلومینِ کشمیر نے بلاول کے اس بیان کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کے برخوردار احمد بن قاسم نے بلاول کے بیان پر ٹویٹر کے ذریعہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ احمد بن قاسم کے والد ڈاکٹر عاشق حسین فاکتو پچھلے 25سال سے بھارت کی قید میں ہیں اور کشمیر کے نیلسن منڈیلا قرار دیئے جاتے ہیں۔احمد بن قاسم کا شمار اُن کشمیری نوجوانوں میں ہوتا ہے جو اپنے آپ کو ’’آدھا یتیم‘‘ سمجھتے ہیں۔ اُن کے ماں باپ زندہ تو ہیں لیکن وہ اپنے ماں باپ کی شفقت سے محروم ہیں۔ عمران خان ان محروموں کی آواز بنے ہیں لیکن یہ محروم عمران خان کی ایک بہت اچھی تقریر پر اُن کا خوب شکریہ ادا کر کے پوچھ رہے ہیں کہ جناب تقریر تو ہو گئی۔ اب آگے کیا ہوگا؟
وہ مہربان جو عمران خان کی تقریر کا مقابلہ بھٹو صاحب کی تقریر سے کر رہے ہیں وہ ایک پریشان کن نکتہ اٹھا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہم لڑیں گے۔ وہ سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں پولینڈ کی قرارداد پھاڑ کر وطن واپس لوٹ آئے لیکن اُس وقت کے صدر یحییٰ خان نے لڑنے کے بجائے سرنڈر کر دیا تھا۔ فیصلہ اگر بھٹو نے کرنا ہوتا تو شاید سرنڈر نہ ہوتا۔سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ عمران خان بھی اعلان تو کر آئے کہ ہم لڑیں گے لیکن کیا ہم لڑنے کے قابل ہیں؟
.کہا تو یہی جا رہا ہے کہ ہم آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے لیکن موجودہ صورتحال میں پاکستانی قوم کو جس اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے اُس کا فقدان نظر آتا ہے۔عمران خان کی ایک بہت اچھی تقریر نے مظلومینِ کشمیر سمیت پاکستانیوں کی اکثریت کو بہت حوصلہ دیا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان قرارداد پیش نہ کر سکا تھا جس پر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ 27ستمبر کو عمران خان جنرل اسمبلی میں نریندر مودی پر خوب گرجے ہیں۔ اب مظلومین کشمیر کو انتظار ہے کہ وہ کچھ برسیں بھی اور کچھ عملی اقدامات بھی کریں ورنہ کہا جائے گا کہ
اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
سچ یہ ہے کہ عمران خان کی تقریر بہت اچھی تھی لیکن پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات اچھے نہیں۔ جو بھی موجودہ حالات میں قومی اتحاد یا یکجہتی کی بات کرتا ہے تو حکمرانوں کے خوشامدی اُسے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور بڑی رعونت سے کہتے ہیں ’’ہم کسی کو این آر او نہیں دیں گے‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کو جیل سے باہر آنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔آصف زرداری نے بھی وکلاء سے کہہ دیا کہ فی الحال میری درخواست ضمانت دائر کرنے کی ضرورت نہیں۔
کچھ لوگ بار بار مولانا فضل الرحمٰن سے گزارش کر رہے ہیں کہ آپ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کو چند ہفتوں کے لئے ملتوی کر دیں لیکن مولانا کہتے ہیں ’’میں عمران خان کو این آر او نہیں دوں گا‘‘۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچھ دنوں میں سیاسی افراتفری شروع ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ عمران خان کی تقریر پر تالیاں بجانے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والے بجلی اور گیس کے بل ادا نہ کر پائے تو اُنہیں چیخنے چلانے سے کون روک سکے گا؟
تقریروں سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔تقریروں سے ظلم بھی کم نہیں ہوتا، اس لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہیں چلنا تو نہ چلیں اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ نہیں چلنا چاہتی لیکن کم از کم بھارت کی طرف سے جارحیت میں مزید اضافے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی حکمتِ عملی وضع کر لی جائے۔میری ناچیز رائے میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بڑھایا جائے گا۔
جمعیت علمائے اسلام کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد حنیف کی ایک بم دھماکے میں شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس واقعے سے ریاست اور اپوزیشن کی ایک اہم جماعت میں مزید غلط فہمیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔یہ واقعہ پاکستان کی دینی قوتوں کو بھڑکانے کی کوشش لگتی ہے۔ دشمن صرف باہر سے نہیں بلکہ اندر سے بھی حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اندر سے حملے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے گھر کے اندر دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں۔
حکمرانوں کے خوشامدی پھر کہیں گے کہ میں کسی کے لئے این آر او مانگ رہا ہوں اور میں پھر کہوں گا کہ آپ سے کوئی این آر او نہیں مانگ رہا۔ صرف یہ عرض ہے کہ پاکستان میں نہیں تو صرف آزاد کشمیر میں تمام سیاسی جماعتوں کو متحد کر لیں کیونکہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات میں قوم کی قیادت گفتار کا غازی نہیں بلکہ صرف کردار کا غازی کر سکتا ہے۔