لاہور (این این آئی)پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ رواں برس کے تیسرے مہینے بھی جاری رہا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال مارچ میں مہنگائی کی شرح میں 35.37 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو گزشتہ پچاس سالوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔یہ اعداد وشمار ایک ایسے موقع پر جاری کیے گئے ہیں، جب جمعے کے روز کراچی میں مفت راشن کی تقسیم کے ایک مرکز میں بھگدڑمچنے سے عورتوں اور بچوں سمیت کم ازکم سولہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حکومت نے ملک بھر میں سستے آٹے کی تقسیم کے لیے مراکز کھول رکھے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ٹرکوں اور ڈسٹری بیوشن پوائنٹس سے آٹے کے ہزاروں تھیلے لوٹ بھی لیے گئے ہیں۔’جس طرح مہنگائی بڑھ رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ قحط جیسی صورتحال ابھر رہی ہے۔”شماریات بیورو کے ایک ترجمان نے کہا کہ مہنگائی کی یہ شرح 1970 کی دہائی میں ماہانہ ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع کیے جانے کے بعد سے بیورو کی طرف سے ریکارڈ کی گیا سب سے زیادہ سالانہ اضافہ ہے۔مارچ میں ریکارڈ کی گئی مہنگائی کی شرح نے فروری میں مہنگائی کی 31.5 فیصد شرح کو بلند شرح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کھانے، مشروبات اور ٹرانسپورٹ کی قیمتیں 50 فیصد تک بڑھ گء ہیں۔پاکستانی معیشت کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روپے کی قدر میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بھی اب صرف چار ہفتوں تک کی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے باقی بچے ہیں۔پاکستانی معیشت کو پچھلے سال اگست میں آنے والیتباہ کن سیلابوں کی وجہ سے بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔
پاکستانی حکومت رواں ماہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گیافراط زر کی شرح میں اضافہوفاقی ادارہ شماریات کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ کے مہینے میں قمیتوں میں 3.72 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق روپے کی قدر میں مسلسل کمی، حکومت کی جانب سے قیمتوں پر رعایتوں کے خاتمے اور ٹیکسوں میں اضافے کے بعد افراط زر کی شرح میں حالیہ اضافہ متوقع تھا۔شماریات بیورو نے کے مطابق مارچ میں خوراک کی قمیتوں میں سالانہ افراط زر کی شرح شہری اور دیہی علاقوں کے لیے بالترتیب 47.1 فیصد اور 50.2 فیصد رہی۔ پاکستان کا مرکزی بینک بنیادی سطح پر افراط زر میں اس اضافے کو تشویش کا باعث قرار دے چکا ہے۔