لاہور( این این آئی)ایک سال کے دوران فارما کمپنیوں نے 3.4 ارب یونٹس فروخت کئے اور اس میں 12 فیصد گروتھ دیکھی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران 6 کھرب 15 ارب روپے کی ادویات فروخت ہوئیں جبکہ ان ادویات کی تیاری کیلئے 2
سے ڈھائی کھرب روپے کا خام مال خریدا گیاہے۔پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کی موجودہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر عزیر ناگرہ نے بتایا کہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ تھی، اس پر کوئی سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، سابق حکومت نے کہا کہ ہم آپ پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگا رہے ہیں ہم آپ کو یہ واپس کردیں گے لیکن حکومت کے پاس واپس کرنے کا میکنزم نہیں تھا اس حوالے سے کوئی رولز ہی نہیں بنائے گئے۔دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے کہ آپ کوئی قانون لاگو کرنے جارہے ہیں اور اس سے پہلے آپ کی تیاری ہی نہیں، اب تک ہماری جتنی بھی شپمنٹس آئی ہیں اس پر ہمارے اربوں روپے کی ٹیکس کٹوتی کی جاچکی ہے لیکن ہمیں اس کا پتہ ہی نہیں ہے ہمیں وہ پیسہ واپس ملنا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جہاں ڈالر کی قیمت 200 روپے تک پہنچ چکی ہے، پیٹرول کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، ہمارا سارا خام مال باہر سے آتا ہے تو دوسری جانب ٹیکس کے نفاذ نے ادویات کی پیداواری لاگت بڑھادی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو فیکٹریاں بند ہوجائیں گی یا کمپنیاں دوائیں بنانا بند کردیں گی اور عوام کو دوائوںکے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ خام مال پر 17 فیصد ٹیکس لاگو ہونے کے بعد کمپنیوں نے خام مال کی درآمد میں کمی کرلی ہے،
اس کا اثر اب اگلے چند ماہ میں سامنے آجائے گا، جب آپ خام مال کم منگوائیں گے تو دوا کی لاگت بڑھ جائے گی اور قیمت آپ بڑھا نہیں سکتے تو کمپنیاں
وہ دوائیں بنانا بند کردیں گی جنہیں تیار کرنے سے نقصان ہوگا، اس کے نتیجے میں دوا کی قلت ہوگی اور لوگ باہر سے خریدنے پر مجبور ہوں گے اور وہ مہنگی ملے گی۔