اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کے تحت حکومت نے گورنر کی مدت ملازمت میں 3-5 سال توسیع کی تجویز دی ہے۔ روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق حکومت نے سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 کے تحت گورنر، ڈپٹی گورنرز، نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی ارکان کی مدت
میں تین سے پانچ سال تک توسیع کی تجویز دی ہے تاکہ ان کی مدت کو سیاسی منتخب حکومت کے برابر کیا جاسکے۔ ایس بی پی ترمیمی بل 2021 کے ڈرافٹ کے مطابق، گورنر، ڈپٹی گورنرز اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز، مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی ارکان کی تقرری پانچ سال کے لیے کی جائے اور وہ دوبارہ پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہونے کے اہل ہوں۔ ڈرافٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 65 سال کی عمر ہونے پر کوئی بھی شخص گورنر یا ڈپٹی گورنر کا عہدہ سنبھالنے کا اہل نہیں ہوگا۔ مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ گورنر، ڈپٹی گورنر، نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز یا مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی ارکان کا عہدہ خالی کرنے والے ڈائریکٹر یا رکن بننے کے اس وقت تک اہل نہیں ہوں گے، جب تک ان کے عہدے کی معیاد ختم نہیں ہوجاتی۔ جب کہ اس ترمیمی ایکٹ کے نفاذ سے موجودہ گورنرز، ڈپٹی گورنرز یا نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز کی مدت متاثر نہیں ہوگی ، وہ اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے تک اپنے اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی ارکان کی تقرری وفاقی حکومت بورڈ کی سفارش پر کرے گی۔ ان عہدوں کی اسامی پیدا ہونے پر 30 روز کے اندر تقرری کرنا ہوگی۔ گورنر اور ڈپٹی گورنرز کو دوران ملازمت کسی اور کاروبار یا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مذکورہ عہدوں
پر ایسا شخص قائم نہیں رہ سکتا جو کہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن ہو یا کسی بھی حیثیت میں سرکاری ملازم ہو۔ گورنر اور ڈپٹی گورنرز کی نوکری کے شرائط و ضوابط بشمول مراعات کا تعین بورڈ آف ڈائریکٹرز کرے گا۔ جب کہ ان کی چھٹیوں یا بیرون ملک سفر کا تعین بالترتیب
بورڈ اور گورنر کریں گے۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر پرویز طاہر سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے اسٹیٹ بینک گورنر کی دوسری مدت ملازمت کو خودمختاری کے تناظر میں مفادات کا ٹکرائو قرار دیا کیونکہ گورنر تقرری کرنے کی مجاز اتھارٹی کے اعمال پر
اثرانداز ہوکر اپنے لیے دوسری مدت محفوظ کرسکتا ہے۔ لہذا صرف ایک ہی مدت ملازمت ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے نگرانی کو بھی مضبوط کیا جانا چاہئے کیونکہ پارلیمنٹ میں سالانہ رپورٹ جمع کرنے سے موثر احتساب کا عمل یقینی نہیں ہوسکتا۔ ان کا مزید کہنا
تھا کہ مرکزی بینک کو مکمل انتظامی خودمختاری دی جانی چاہئے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا تھا کہ گورنر کی مدت پانچ سال رکھنے کی تجویز دی گئی ہے مگر پاکستان کی عوام نہیں جانتی کہ موجودہ گورنر کو کیا تنخواہ دی جارہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تمام ارکان پارلیمنٹ کو جو
اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی جانچ پڑتال کررہے ہیں انہیں اس حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرنا چاہئے کہ موجوہ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تنخواہوں میں کیا فرق تھا۔ گورنر کو بہترین پیکیج دیا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے
ڈی جیز فی الوقت 35 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ جب کہ اسٹیٹ بینک کے موجودہ بورڈ کے ارکان پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور وہ مجوزہ ترامیم سے متعلق مزید تفصیلات مانگ رہے ہیں۔جب فنانس ڈویژن کے سینئر عہدیدار سے رابطہ کیا گیاتو اس کا کہنا تھا کہ گورنر اسٹیٹ بینک
کی تنخواہ اور مراعات کے پیکیج کو گزشتہ سیکرٹری فنانس نوید کامران بلوچ کے دور میں حتمی شکل دی گئی تھی، اس لیے اعلیٰ حکام اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ تاہم، اسٹیٹ بینک ذرائع کا کہنا تھا کہ بورڈ ممبرز کو مجوزہ بل سے متعلق بریفنگ دی گئی تھیں اور مزید معلومات جلد فراہم کی جائیں گی۔ تاہم، انہوں نے موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے انکار کردیا۔