اسلام آباد (این این آئی)پاکستان بزنس فورم کے نائب صدر چوہدری احمد جواد نے کہا کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے عوام پر مزید ٹیکس لگانے پر غور کر رہی ہے‘ منی بجٹ کے ذریعے 65ارب کی تنخواہوں کا اضافی بوجھ خزانہ پر پڑے گا ‘ حکومت اس کے نتیجے میں دو سو ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے
جا رہی ہے‘ درآمددی ڈیوٹیز کی شکل میں ملک کی بزنس کمیونٹی مسترد کرتی ہے ۔ اس وقت عوام اور بزنس کمیونٹی پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور بڑی مشکل سے ٹریڈانڈسٹری کو فروغ دیا جا رہا ہے ‘ اگر حکومت آئندہ ماہ ایک نیا منی بجٹ پیش کرتی ہے تو اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا‘ بزنس کمیونٹی اور عام آدمی کے لیے مہنگائی کی اس نئی لہر کو سہنا مشکل ہو گا‘ وفاقی حکومت ایسے اقدامات سے گریز کرے اور اپنی آمدن بڑھنے کے لیے دیگر ایسے آپشنز پر پر غور کرے جس سے ملکی آمدن میں اضافہ ہو اور عوام اور بزنس کمیونٹی کو بھی ریلیف دیا جا سکے۔ احمد جواد نے مزید کہا کہ جب تک اس ملک میں روپیہ مستحکم نہیں ہو گا اور ڈالر نیچے نہیں آئے گا تب تک اس ملک کو اس طرح کے منی بجٹ سے ڈسا جاتا رہے گا‘ جب تک زرعی پیداوار اور زراعت کے اندر خاطرخواہ بہتری نہیں لائی جائے گی تب تک حکومت سے جو بھی کوئی مطالبہ کرے ‘ اس کے ردِعمل میں ایک نیا منی بجٹ ملک میں نافذ کر دیا جائے گا۔ یہ طریقہ ناقابل قبول ہے ‘ اس سے انفلیشن میں کمی تو دور کی بات مزیداضافہ ہی ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں پچھلے ڈیڑھ کے دوران جو دو تین بار ردوبدل ہوا ہے ‘ اس سے قومی انڈسٹری اور عوام کو سخت دھچکا لگا ‘ عوام اور انڈسٹری
اسے ہی سہہ نہیں پائے تھے کہ وزارت خزانہ کی طرف سے اس ملک پر دو سو ارب کا نیا منی بجٹ مسلط کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں‘ اگر حکومت نے اپنے ٹیکس محصولات کو بڑھانا ہے تو سیلز ٹیکس کے اندر نمایاں کمی لائے ‘ وفاقی اداروں میں اصلاحات نافذ کی جائیں تاکہ حکومت کومعقول آمدن حاصل ہو سکے۔
احمد جواد نے کہا کہ اصلاحات لائی نہیں جا رہیں اور آئی ایم ایف کی ایما پر ٹیکسز کا نیا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ منی بجٹ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جون کے مہینے میں پیش کیے جانے والا بجٹ اس ملک میں مزید بھاری ٹیکسز کا ایک مجموعہ ثابت ہو گا۔