بھارت کو پاکستانی باسمتی چاول پر اپنا لیبل لگا کر عالمی مارکیٹ میں کامیاب ہونے نہیں دیں گے، تمام ممکنہ قانونی اقدامات کئے جائیں گے،وفاقی حکومت کا دوٹوک اعلان

15  ستمبر‬‮  2020

اسلام آباد(آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اجلاس میں وفاقی حکومت نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے باسمتی چاول پر اپنا لیبل لگا کر عالمی مارکیٹ میں کامیاب ہونے نہیں دیں گے بلکہ بھارت کے خلاف تمام ممکنہ قانونی اقدامات کئے جائیں گے۔ پاکستان میں بننے والی اشیاء دیگر ممالک کے مقابلے میں غیر میعاری ہیں۔

حکومت جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ملک میں بجلی کی کھپت میںکمی لا سکتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کا ا ہم اجلاس سینیٹر مشتاق احمد کی صدارت میں ہوا جس میں وزارت کے اعلیٰ افسران کے علاوہ ممبران کمیٹی جن میں نعمان وزیر، سید صابر شاہ، نزہت صادق ، اسد جونیجو، سسی پلیجو، کامران مائیکل، گیان چند نے شرکت کی اور افسران سے تفصیل کے ساتھ اہم امور پر بریفنگ کی۔ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے افسران نے کمیٹی کو بتایا کہ یورپ اور امریکہ ، جاپان، کوریا وغیرہ کے مقابلہ میں پاکستان میں اشیاء کا معیارانتہائی ناقص ہے اور جو پروڈکٹس پاکستان میں استعمال ہوتا ہے وہ یورپ میں استعمال نہیں ہو سکتا اگر پاکستان میں معیاری بلب ہی بنا لئے جائیں تو بجلی کی کھپت میں کمی ہو سکتی ہے۔ حکومت کے 61اشیاء کو مزید کوالٹی کنٹرول میں شامل کیا ہے ۔ اسکا معیار بنایا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ کوالٹی کنڑول اتھارٹی کے پاس اشیاء کا معیار جانچنے کے لے لیب بھی نہیں ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی، وزیر اعظم کے زیرکنٹرول سائنس کمیٹی کا اجلاس 2002ء کے بعد ہوا بھی نہیں ہے جبکہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر کنٹرول سائنس کمیٹی کا بھی اجلاس 2010ء کے بعد طلب ہی نہیں کیا گیا ، یہ حکومت کی انتہائی غیرمنصفانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ آئی پی او کے چئیرمین مجیب احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں ریسرچ پر بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔پاکستان میں 100سے زائد یونیورسٹیاں ہیں لیکن صرف 10یونیورسٹیوں کے

گزشتہ دس سالوں میں ریسرچ پیپرز آئی پی او کو دے کر پیٹنٹحاصل کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس دفعہ پاکستان کے باسمتی چاول پر لیبل نہیں لگانے دیں گے۔ پی آئی او کے پاس 268کمپنیوں کے سرٹیفیکیٹ کے لئے درخواست دی ہیں جن میں 237غیرملکی جبکہ 31ملکی ہیں۔

گزشتہ دس سالوں میں 15اداروؓ بت 709درخواستیں دی ۔ پروڈکٹس کے لئے پیٹنٹ حاصل کرنے کے لئے ہم سے رجوع کیا ہے۔ پاکستان میں 100سے زائد یونیورسٹیاں ہیں لیکن صرف 8نے ریسرچ پیپرز گزشتہ دس سالوں میں جمع کرائے ہیں ۔ قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ر یسرچ کے نام پر یونیورسٹیوں نے بھاری فنڈز حاصل کئے ہیں۔ ان کے اخراجات کی تحقیقات کرنی چاہیے۔

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…