لاہور( این این آئی) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2016سے2019ء کے درمیان بینکوں کے حوالے سے درج کرائی گئی شکایات بارے جائزہ رپورٹ جاری کر دی جو2016 میں 774,656 سے بڑھ کر 2019 میں 1,549,837 ہوگئیں۔ اعلامیے کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوںڈی ایف آئیزایم ایف بیز کے خلاف 2016 تا 2019 کی شکایات کا جائزہ لیا گیا۔
گشتہ چار برسوں کے دوران بینکوں کے خلاف شکایات 2016 میں 774,656 سے بڑھ کر 2019 میں 1,549,837 ہوگئیں۔ یہ اضافہ اس لیے ہوا کہ تنازع کے تصفیے کے طریقہ کار سے اب زیادہ لوگ واقف ہیں اور اس تک رسائی بہتر ہوگئی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ صارفین کی آگہی بھی بڑھی ہے۔ مزید برآں اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ بینکاری ٹرانزیکشنز کی تعداد اور مالیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اعلامیے کے مطابق زیر جائزہ مدت کے دوران اے ٹی ایم ڈیبٹ کارڈ کی ٹرانزیکشنز کے حجم اور مالیت میں بالترتیب 101 فیصد اور 110 فیصد ،ڈپازٹ اکانٹس فی اے ٹی ایم اور فی برانچ کی تعداد میں بالترتیب 62 فیصد اور 81 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2016 سے 2019 کے دوران ای بینکاری ٹرانزیکشنز کے حجم اور مالیت میں بالترتیب 112 فیصد اور 152 فیصد کا اضافہ ہوا جس کا سبب ای بینکاری استعمال کنندگان میں 71 فیصد اضافہ تھا۔ علاوہ ازیں کریڈٹ کارڈ کی ٹرانزیکشنز 18 ملین سے بڑھ کر 39 ملین ہوگئیں جن سے 4 برسوں میں 118 فیصد کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ اعلامیے کے مطابق 2016 سے 2019 تک کے عرصے میں تصفیے کی شرح ہر سال کے آخر میں 97 فیصد سے زیادہ رہی۔ شکایات کے تصفیے کا اوسط وقت ضوابط کے مطابق مقررہ وقت کی حدود کے اندر رہا تاہم اقرار ِوصولی ، عبوری جوابات اور حتمی جوابات بھیجنے میں تاخیر دیکھی گئی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ چونکہ شکایات دور کرنے کا پہلا فورم بینک ہیں اس لیے وہ شعبے کی مجموعی شکایات کے 97 فیصد یا زائد کو نمٹاتے رہے جبکہ 3 فیصد سے کم شکایات بلند تر سطحوں پر لائی گئیں جن میں اسٹیٹ بینک، بینکاری محتسب اور وزیر اعظم ڈلیوری یونٹ کا قائم کردہ پاکستان سٹیزن پورٹل شامل ہیں۔بینکوں میں تصفیہ شکایات کے عمل میں بہتر ی لانے اور مسابقت کے فروغ کے لیے اسٹیٹ بینک متعلقہ اکتشافات کو بہتر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے جس میں مستقبل قریب میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے مختلف بینکوں کے شکایات نمٹانے سے متعلق کارکردگی کے اظہاریوں کی اشاعت شامل ہے۔