لاہور( این این آئی )پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ سیلز ٹیکس کے قوانین میں تبدیلی کیوجہ سے درآمد شدہ خام مال ملک میں تیار ہونے والے خام مال سے سستا ہو گیا ہے جس سے نہ صرف مقامی صنعت شدید مشکلات سے دوچار ہے بلکہ بھاری مقدار میں زرمبادلہ بھی ضائع ہو رہا ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ درآمدات کو مقامی پیداوار پر ترجیح
دینے کی پالیسی بدلی جائے، یہ رجحان ملک میں صنعتوں کی بندش، بینک ڈیفالٹ، غربت اور بیروزگاری محاصل میں کمی اور زرمبادلہ کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے اس لئے ان قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ڈاکٹر مرتضی مغل نے کہا کہ زیرو ریٹنگ کے خاتمہ کے بعد برآمدی صنعت مقامی منڈی سے خام مال خریدنے کے بجائے درآمدات کو ترجیح دی رہی ہے جس سے ملک میں کپاس، دھاگے اور خام کپڑے کی طلب کم ہو گئی ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خام مال تیار کرنے والے ہزاروں صنعتی یونٹ خطرات سے دوچار ہو گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو درآمد شدہ خام مال پر سیلز ٹیکس یا ڈیوٹی اد انہیں کرنا پڑتی جبکہ مقامی خام مال بھاری ٹیکس عائد ہیں اور ان صنعتوں کوریفنڈ کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے انکی کاروباری لاگت بڑھ جاتی ہے۔انہوںنے مزید کہا کہ موجودہ پالیسیوں کے سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض عناصر خام مال کی آڑ میں تیار مال درآ مد کرکے فوائد سمیٹ رہے ہیں جس سے دیگر ممالک کے مینوفیکچررز کو ملکی مینوفیکچررز پر ناجائز ترجیح مل رہی ہے جو ملکی مفادات کے خلاف ہے۔