کراچی(این این آئی)پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے خسارہ کم کرنے کے لئے نیم جان سرکاری اداروں کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ ناکام سرکاری اداروں کو پالنے کے بجائے فوری فروخت کرنا ملکی مفاد میں ہے۔
نجکاری میں مشکلات ہوں تو ان اداروں کو بند کر دیا جائے۔سرکاری یتیم خانوں میں ملازمتیں جاری رکھنے کے لئے بیس کروڑ عوام کا استحصال نہیں ہونا چائیے۔نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کے نقصانات کھربوں روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ 2017-18 میں صرف واپڈا اور پی آئی اے کو زندہ رکھنے کے لئے حکومت کو 277 ارب روپے خرچ کرنا پڑے ہیں۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ اٹھارہ ہزار ملازمین پر مشتمل ادارے پی آئی اے کا ماہانہ نقصان تیس ملین ڈالر اور کل قرضہ دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔سٹیل مل بھی دو سال سے بند پڑی ہے مگر اسکے ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں باقائدگی سے ادا کی جا رہی ہیں۔توانائی کے شعبے اورریلوے سمیت 197 مفلوج اداروں کا حال توجہ طلب ہے جس کے نقصانات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔نقصانات کے باوجود سرکاری اداروں کی تعداد، ان کے ملازمین کی تعداد اور انتظامیہ کے حجم میں اضافہ حیران کن ہے۔انھوں نے کہا کہ ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹنے والے ان اداروں کو زندہ رکھنے سے نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی ٹیکس گزار کو بلکہ سارا فائدہ نا اہل ملازمین،کرپٹ انتظامیہ سیاستدانوں اور اشرافیہ کو ملتا ہے۔ان دیوالیہ اداروں کو ہر حکومت مرغن ٹھیکے لینے ، سیاسی رشوتیں دینے اور اپنے نا اہل پارٹی ورکروں کو اچھی ملازمتیں دینے کے لئے زندہ رکھتی آ رہی ہے جس کے لئے سرکاری وسائل لٹائے جا رہے ہیں جو عوام کو مسلسل قربانی کا بکرا بنانے کے مترادف ہے۔ان اداروں کو منافع بخش بنانے کے لئے جو منصوبہ بنایا گیا ہے اسکے نتائج گزشتہ کئی دہائیوں سے بننے والے منصوبوں سے مختلف نہیں ہونگے۔