اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان ریلوے کی جانب سے اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جولائی 2017 سے جنوری 2018 کے درمیان اسے 20 ارب 60 کروڑ روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم این اے شیخ روحیل اصغر کی جانب سے پاکستان ریلوے کے نقصانات کے حوالے سے پوچھے گئے تحریری سوال پر ریلوے حکام نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جولائی 2017 کے بعد سے نقصانات میں اضافہ ہوا اور اگست 2017 تک یہ خسارہ 40 کروڑ 34 لاکھ سے بڑھ کر 3 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
’پاکستان بُلٹ ٹرین کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا‘ پاکستان ریلوے نے اپنے جواب میں بتایا کہ 2 ماہ بعد اکتوبر 2017 میں یہ منافع 3 ارب 41 کروڑ جبکہ دسمبر 2017 تک یہ 4 ارب 3 کروڑ تک جا پہنچا تھا جبکہ یہ خسارہ سب سے زیادہ صرف جنوری میں 3 ارب 20 کروڑ روپے دیکھا گیا۔ انہوں نے بتایا مالی سال 18-2017 کے لیے پاکستان ریلوے کا بجٹ 90 ارب روپے تھا، جس میں تنخواہوں اور پنشن پر 56 ارب روپے کے فنڈز خرچ ہوئے، تاہم ارکان کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ اس خسارے کو کچھ اضافی ریونیو رسیدوں کو بنا کر اور خرچ کو کم کرکے کنٹرول کیا جاسکتا۔ خیال رہے کہ ریلوے کے کل بجٹ 90 ارب روپے کا 62 فیصد صرف تنخواہوں اور پینشنز کے اخراجات پر خرچ ہوتا ہے اور انہیں کںٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ اکستان ریلویز کا ٹرینوں کے کرایوں میں 10 فیصد تک اضافہ قومی اسمبلی کے سامنے بتایا گیا کہ کل بجٹ میں سے بقیہ 34 ارب 20 کروڑ روپے میں سے 13 ارب 40 کروڑ روپے کی بڑی رقم مالی سال 18-2017 میں آپریشنل ایندھن کے لیے مختص کی گئی اور یہ خرچ بھی قابو سے باہر تھا۔ اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری برائے ریلوے راجا محمد جاوید اخلاص کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تحت حکومت، ریلوے پر 8 ارب 20 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ رکھتی ہے۔