ریاض(این این آئی)سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے کئی ماہ سے اپنی ہمسایہ ریاست قطر کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس ناکہ بندی کے باوجود قطری معیشت میں مسلسل بہتری دیکھی جا رہی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق قطر کو سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کی ناکہ بندی سے جو نقصان پہنچا وہ اْس کے سیاحتی شعبے میں واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔
سیاحت کے شوقین حضرات نے گزشتہ برس جون سے شروع ہونے والے سعودی قظری تنازعے کے بعد اِس خلیجی ریاست کا رخ سابقہ برسوں کے مقابلے میں کم کیا۔ایک اور قطری شعبہ جو متاثر ہوا ہے، وہ ہے ریئل اسٹیٹ کا کاروبار اور اس میں خاص طور پر غیر ملکی افراد نے اپارٹمنٹس کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار محدود کر دیا ہے۔ قطر کی ناکہ بندی کرنے والوں میں سعودی عرب کے ساتھ متحدہ عرب امارات، بحرین، اور مصر شامل ہیں۔لندن میں قائم بین الاقوامی اقتصادی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے تھنک ٹینک کیپیٹل اکنامکس کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سفارتی بحران کے بعد ایسا امکان پیدا ہوا تھا کہ قطری ریاست کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکے گا لیکن دوحہ حکومت کساد بازاری کے خطرے کو زائل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی ہے۔کیپیٹپل اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست کی اقصادیات نے گزشتہ برس کی آخری چوتھائی میں 1.9 کی شرح سے ترقی کی ہے۔ یہ شرح سن 2017 کی دوسری چوتھائی کے مقابلے میں 0.3 فیصد زیادہ رہی۔ اسی طرح قطر کا ہائیڈرو کاربن سیکٹر بھی مندی کا شکار نہیں ہوا اور اس کی شرح بدستور بہتر رہی۔کیپیٹل اکنامکس کے مطابق گزشتہ برس شروع ہونے والی ناکہ بندی کے سات مہینوں کے دوران قطری بینکوں کی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق ذمہ داریوں میں اضافے سے معلوم ہوتا ہے کہ قطری معیشت متحرک ہے۔کیپیٹل اکنامکس کے مطابق گزشتہ برس نومبر کے بعد سے قطر کی سیاحتی شعبے کو بیس فیصد کی کمی دیکھنا پڑی۔ اس باعث دوحہ حکومت کو چھ سو ملین ڈالر کے مساوی نقصان کا سامنا رہا۔ اسی طرح قطری ہوائی کمپنی کو بھی ناکہ بندی نے شدید انداز میں متاثر کیا۔ اس تنازعے نے قطر ایئر لائن کو کسی حد تک مسشکل میں ڈال رکھا ہے۔ اس کے مسافروں کی کمی پچیس فیصد تک رہی ہے۔