لاہور( این این آئی) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دہشتگردوں کی مالی معاونت کو روکنے کیلئے ملک کے تمام بینکوں کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈول میں موجود 2 ہزار 21 افراد سے وابستہ بینک اکانٹس کو فوری طور پر منجمد کرنے کی ہدایات جاری کر دیں،فہرست میں شامل 1443 افراد کا تعلق پنجاب، 226 کا سندھ، 193 کا بلوچستان، 106 کا گلگت بلتستان، 27 کا اسلام آباد اور 26 کا آزاد کشمیر سے ہے جبکہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا نام شامل نہیں۔میڈیا رپورٹ میں مرکزی بینک کے ذرائع کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ تمام بینکوں، ڈیویلپمنٹ فنانس انسٹی ٹیوشن اور مائیکرو فنانس بینکوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ قانون کے مطابق ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جن کے نام نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی (نیکٹا)کی جاری کردہ فہرست میں شامل ہیں۔اے ٹی اے کا سیکشن 11-O اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ بینک اور متعلقہ ادارے فہرست میں شامل افراد سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر وابستہ رقم اور جائیداد ضبط کرسکتے ہیں۔فہرست کے مطابق ان 2 ہزار 21 افراد میں زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے رہنما اور ارکان شامل ہیں جن کے نام بینکوں کو مذکورہ ہدایات کے ساتھ بھیجے گئے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس اقدام کا مقصد متعدد فرقہ پرست اور کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔فہرست میں شامل بعض نمایاں افراد میں مولوی عبدالعزیزی(لال مسجد)، محسن نجفی، مولوی احمد لدھیانوی(اہل سنت والجماعت)، اورنگزیب فاروقی(اہل سنت والجماعت)، علامہ مقصود ڈومکی(مجلس وحدت المسلمین)، پریال شاہ(اہل سنت والجماعت)، مولوی کبیر(اہل سنت والجماعت)، سبطین شیرازی(غیر فعال تحریک جعفریہ پاکستان)، مرزا علی(ٹی جے پی)، رمضان مینگل(لشکر جھنگوی)، شیخ نیئر (ٹی جے پی) اور شاہد بکیک (لیاری امن کمیٹی) شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فہرست میں ان لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔فہرست میں شامل تقریباً نصف 1443 افراد کا تعلق پنجاب، 226 کا سندھ، 193 کا بلوچستان، 106 کا گلگت بلتستان، 27 کا اسلام آباد اور 26 کا آزاد کشمیر سے ہے جبکہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا نام شامل نہیں۔جو فہرست بینکوں کو بھیجی گئی ہے ان میں وہ تمام نام شامل نہیں جو اے ٹی اے کے فورتھ شیڈول میں جاری کیے گئے تھے جبکہ انسداد دہشت گردی کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ مکمل فہرست میں تقریباً ساڑھے چھ ہزار سے 8 ہزار کے قریب نام موجود ہیں۔یہ بات واضح نہیں کہ بینکوں کو فراہم کی جانے والی فہرست میں لوگوں کے نام کس طریق کار کے تحت شامل کیے گئے جبکہ سرکاری دستاویز ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے فورتھ شیڈول کو کبھی بھی مکمل طور پر منظر عام پر نہیں لایا گیا۔وفاقی حکومت ایسے کسی بھی شخص کو فوتھ شیڈول میں شامل کردیتی ہے جس پر دہشتگردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو یا وہ کسی ایسی تنظیم کا کارکن، عہدے دار اور معاون ہو جسے سیکشن 11 ڈی کے تحت زیر نگرانی رکھا گیا ہے یا پھر 11 بی کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے یا پھر کسی ایسی تنظیم کا یا گروپ کا حصہ ہو جس پر دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔ممکنہ طور پر یہ پہلی بار ہے کہ دہشت گردی سے وابستگی کے شبے میں اتنے بڑے پیمانے پر بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔