کراچی (آن لائن)پاکستان آٹوموٹو اسیمبلرز ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین اقبال شاہ نے کہا کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی بیگج اور گفٹ اسکیموں کے غلط استعمال کے معاملے میں تفتیش کرے کیونکہ اس سے قومی معیشت کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔انہوں نے اس معاملے پر انتہائی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بہت خدشات ہیں کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی غیر قانونی درآمد ایف بی آر کے سامنے کھلے عام ہو رہی ہے ۔اسکمگلڈ اور بغیر ڈیوٹی کی گاڑیاں غیر قانونی کاروں کی درآمد کا بہت بڑا حصہ ہیں اور اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اس کی روک تھام کرے تاکہ ٹیکسوں کی مدمیں ملک کو ہونے والے نقصان سے بچایا جا سکے۔ان گاڑیوں کی درآمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2015-16میں 54,000 گاڑیاں درآمد کی جا چکی ہیں۔ 2014-15میں کل درآمدات صرف 30,000 گاڑیاں تھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس مالی سال کے پہلے دہ مہینے(جولائی ، اگست) میں 8500 گاڑیاں درآمد کی جا چکی ہیں۔ اس میں 4440 گاڑیاں جولائی اور 4076اگست میں درآمد کی گئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق 4471 گاڑیاں 800ccکی ہیں، 1580گاڑیاں 800ccاور1000ccکی ہیں۔ 1549گاڑیاں 1500ccاور 1800ccاور 912 1800cc سے زیادہ پاورکی ہیں۔ ان گاڑیوں میں لگثری، ایس یو وی، ٹرکس، بسیں اور ایل سی وی شامل ہیں۔اقبال شاہ نے کہا کہ پچھلے دس سال میں 3لاکھ گاڑیاں درآمد کی جا چکی ہیں۔استعمال شدہ گاڑیوں نے مقامی مارکیٹ میں ایک خاطر خواہ حصہ قائم کر لیا ہے۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد بھی ان وجوہات میں شامل ہیں جن کی وجہ سے ہنڈائی، نسان، شیورلٹ، فیٹ اور آدم موٹرز کے پلانٹ بند ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان گاڑیوں کو بطور نان کموڈٹی درآمد کیا جاتا ہے اور پھر کیش پر کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔اگر ایک گاڑی کی قیمت کا تخمینہ15لاکھ لگایا جائے تو ان گاڑیوں کی خرید و فرو خت سے تقریبا 80ارب روپے کی اکنامک سرگرمیوں کو فروغ ملا ہے۔استعمال شدہ گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی ان کی فروختی قیمت پر ہو نے کی بجا ئے ڈالرز میں ایک مختص رقم کی شکل میں وصول کی جاتی ہے اس میں کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس شامل ہیں۔ ان ٹیکسز کی کو ئی مختص شرح نہیں ہے۔یہ ڈیوٹیز بہت مخفی ہیں اور اس سے حکومت کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔اس سے یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کو ایک طرح کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔اس سے مقامی گاڑیوں کی صنعت کو نقصان ہو رہا ہے۔اس فکسڈ ڈیوٹی کا شمار گاڑیوں کی موجودہ قیمتوں کی آدھی سے بھی کم قدرپر کیا جاتا ہے۔اس میں 2005کی مانیٹری پا لیسی کو بطور معیار سامنے رکھا جاتا ہے۔انہو ں نے کہا کہ ایف بی آر کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 500اسمگلڈ گاڑیوں کی ریجسٹریشن کے لیے دی جانے والی ایمنسٹی سے قومی خزانے کو 43.728ملین روپے کا نقصانہ ہوا ہے جس پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ تا ہم ایف بی آر کا رویہ استعمال شدہ کی گاڑیوں کی ویلوایشن پر بالکل مختلف ہے جو کہ ایک حیرت کن بات ہے کیو نکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سے بھی قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور ایف بی آر کو اس طرف بھی اتنی ہی سنجیدگی سے توجہ دینے چائیے جتنی کہ وہ اس طرح کے دوسرے اقدامات پر دے رہا ہے۔۔