اسلام آباد(این این آئی) وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ 40ارب روپے اکٹھے کرنے کے لئے آئین اور قانون کے تحت قدم اٹھایا اسے منی بجٹ نہ کیا جائے،فیصلہ نہ کرتے تو صوبوں میں ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے،پی آئی اے کوکمپنی بنانے کا مقصد اسے بیورو کریسی سے آزاد کرنا ہے تاکہ اس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز اپنے فیصلے آسانی سے کر سکے‘ ملازمین اور حصص یافتگان کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے‘ قرضوں کے حوالے سے حکومتی ضمانت بدستور برقرار رہے گی‘ پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ایئرلائن بنائیں گے‘معیشت کو سیاست سے دور رکھا جائے،امیر آدمی کو پیسہ ملک کو دینے دیں۔ کسی نے اپنے جانوروں کو درآمد شدہ خوراک کھلانی ہے تو انہیں ملک کو پیسے دینے چاہئیں۔ پیرکو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت مشاورت پر یقین رکھتی ہے‘ پاک چین اقتصادی راہداری اور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فیصلے مشاورت اور اتفاق رائے سے کئے گئے۔ ملکی معاملات چلانے کےلئے بعض اوقات وقت پر فیصلہ کرنا سودمند ہوا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کے حوالے سے 30 نومبر کو اٹھائے گئے اقدامات کے تحت 40 ارب روپے مالیت کے پانچ ایس آر اوز جاری کئے گئے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ٹیکسوں کی شرح نمو میں تین سے دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال بھی ہم نے 20 فیصد کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے۔ یکم جولائی سے 30 ستمبر تک پہلے کوارٹر میں 40 ارب کا شارٹ فال تھا۔ ہمیں معیشت کو سیاست سے الگ کرکے دیکھنا چاہیے۔ بجٹ کے وقت ارکان اسمبلی ‘ سینٹ اور میڈیا پر جہاں سے بھی اچھی تجویز آئی ہم نے اسے شامل کیا۔ 2013ءکے اعداد و شمار کے مقابلے میں 14.5 فیصد شرح نمو آئی۔ وفاقی حکومت کے پاس ٹیکسوں کے محاصل کا ایک تہائی حصہ بچ جاتا ہے۔ باقی رقم صوبوں کو ان کے ترقیاتی پروگراموں کے ذریعے دیتے ہیں۔ اگر 40 ارب کا ایک تہائی حصہ وفاق کو نہ ملتا تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا مگر صوبوں میں ترقی کا عمل متاثر ہو سکتا تھا۔ ہم نے 40 ارب کے شارٹ فال کو پورا کرنے کے لئے 1400 آئٹمز میں سے ایک ایک پر ہفتوں غور کیا۔ ہمارے اس فیصلے کا اثر صرف درآمد کردہ لگژری آئٹمز پر پڑے گا۔ مقامی اشیاءکی قیمتیں متاثر نہیں ہونگی ہم نے یہ فیصلہ کسٹم ایکٹ کے تحت کیا۔ انہوں نے ایکٹ کی شق 25,18 اور 25-A کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت 4 آئٹمز پر کسٹم ایکٹ اور ایک آئٹم پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ 2005ءکے تحت 61 لگژری آئٹمز پر ڈیوٹی لگائی گئی۔ اس میں بیرون ملک سے درآمد کردہ چکن‘ منرل واٹر اور دیہی وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر آدمی کو پیسہ ملک کو دینے دیں۔ 289 آئٹمز پر پانچ سے بڑھا کر دس فیصد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کتے اور بلیوں کے لئے خوراک موجود ہے۔ اگر کسی نے اپنے ان جانوروں کو درآمد شدہ خوراک کھلانی ہے تو انہیں ملک کو پیسے دینے چاہئیں۔ 2013ءمیں ساری دنیا کے عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کے لئے دروازے بند کردیئے تھے۔ یہ 2015ءکا پاکستان ہے‘ ساری دنیا کے دروازے ہمارے لئے کھلے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جو چیز عام آدمی نہیں خرید سکتا وہ لگژری آئٹمز میں آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک فیصد اضافی ڈیوٹی صرف ان اشیاءپر لگائی گئی ہے جن کا ففتھ شیڈول میں ذکر ہے۔ 800سی سی ‘ 100 سی سی والی گاڑیوں پر ڈیوٹی نہیں لگائی گئی۔ اس سے اوپر چار کیٹگریز کی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 1800سی سی سے اوپر والی گاڑیوں پر دس فیصد ٹیکس ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ معیار کے سگریٹ پر ساڑھے 12 پیسے فی سگریٹ اور کم قیمت سگریٹ پر دس پیسے فی سگریٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو صوبوں کا نقصان ہوتا۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کا بھی ملک پر حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر یہ مشکل وقت ہے‘ لاکھوں افراد نے ہمارے امن کے لئے اپنے گھر چھوڑے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی باعزت اور باوقار واپسی چاہتے ہیں۔ ہمیں پیٹ بھی کاٹنا پڑا تو کاٹیں گے۔ اسے منی بجٹ نہ کہا جائے‘ ہم سب کو مل کر ملک کو آگے لے کر جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں 22 فیصد اور نومبر میں 28 فیصد ریونیو میں گروتھ ہے۔میثاق معیشت کے تحت آکر ہماری رہنمائی کریں حکومت 2011ءمیں آئی ایم ایف کے پاس گئی تھی۔ یہ پروگرام پاکستان نے ختم کردیا تھا۔ ہم نے اس رقم کی ادائیگی کی ہے۔ ابھی تک ہمیں آئی ایم ایف سے اڑھائی سو سے تین سو ملین ڈالر رقم آئی ہے۔ ہم نے ان سے ری شیڈول نہیں کرائے۔ پہلے سال کی قسطوں کی مد میں ہم نے اپنے پاس سے ایک ارب ڈالر ادا کئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی کا محتاج نہیں ہے، ہم نے ایٹمی دھماکے کے بعد لگنے والی پابندیوں کے بعد بھی ملک کو چلا کر دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح بتدریج کم ہو کر 1.6 فیصد تک آگئی ہے۔ وزیر خزانہ نے پانچوں ایس آر اوز اور جن قوانین کے تحت یہ جاری ہوئے ہیں ان کی نقول سپیکر کو پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ 1999ءمیں مسلم لیگ (ن) کے دور میں ملک پر قرضے 2946 ارب روپے تھے۔ جب پیپلز پارٹی کو حکومت منتقل ہوئی تو یہ قرضے 6000 ارب روپے تھے۔ جب مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ حکومت ملی تو قرضوں کا حجم 14850 ارب تھا۔ ہم نے مالیاتی ڈسپلن کے تحت ملک پر قرضوں کا بوجھ کم کیا ہے۔ یکم جولائی 2013ءکو 7 لاکھ گیارہ ہزار ٹیکس گزار تھے اب یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے 11 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ہم اسے 15 فیصد تک لائیں گے۔ پی آئی اے کے حوالے سے آرڈیننس کے اجراءکے حوالے سے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 89 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی طلبی کے باوجود اگر حالات کے تقاضے کے تحت ضروری سمجھیں تو آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں۔ آئین اور قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ اکثر ساتھیوں نے کہا کہ پی آئی اے کے نقصانات 1300 ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ پی آئی اے کی ری سٹرکچرنگ کےلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم نے پی آئی اے کے ملازمین کو نہیں چھیڑا۔ جون 2013ءمیں 18 جہاز تھے اب یہ تعداد 38 ہے۔ جلد ہی یہ تعداد 40 ہو جائے گی۔ پی آئی اے ری سٹرکچرنگ کی وجہ سے 82 فیصد زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہمیں مثبت پہلوﺅں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ آرڈیننس نجکاری کے لئے نہیں ہے۔ پی آئی اے قانون کے تحت کارپوریشن ہے۔ اگر اس ادارے کو اختیار دینا ہے اور آگے لے کر جانا ہے تو اسے آزاد کرنا ہوگا۔ آرڈیننس کا مقصد ادارے کو کارپوریشن سے ہٹا کر کاروباری ادارہ بنانا ہے۔ اس قانون کے ذریعے پی آئی اے کو بیورو کریسی کی ماتحتی سے ہٹایا گیا ہے۔ تمام ملازمین کے حقوق میں کوئی کمی نہیں آئی ‘ تمام موجودہ ملازمین کے حقوق کو اس قانون کے تحت تحفظ دیا گیا ہے۔ پی آئی اے کے قرضوں کے لئے حکومتی گارنٹی بدستور قائم رہے گی۔ ملازمین کے 15 فیصد اور پاکستان کے عوام کے 85 فیصد شیئرز برقرار رہیں گے۔ ان اقدامات سے ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو اختیار حاصل ہوگا۔ انہیں فیصلہ کرنے میں آزادی ہوگی اور پی آئی اے کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ ارکان تجاویز دیں اگر کمیٹی بنانی ہے تو بنا دیں۔