اسلام آباد(نیوزڈیسک) سی این جی اور کھاد سیکٹر سے جی آئی ڈی سیس کی وصولی کیسے ممکن بنائی جائے ؟سینٹ کی خصوصی کمیٹی گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس مشکل میں پڑ گئی ۔وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ سی این جی سیکٹر پر 40 ارب روپے کا جی آئی ڈی سیس واجب الادا ہے ، تاہم اوگرا کی سی این جی سیکٹر کے بارے میں پالیسی غیر منطقی اور غیر مساویانہ ہے ۔کمیٹی نے سی این جی سیکٹر سے تجاویزطلب کر لیں جبکہ کھاد سیکٹر کے بارے میں جی آئی ڈی سیس کامعاملہ موخر کردیا۔سینیٹ کی خصوصی کمیٹی گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کا اجلاس کنوینر کمیٹی سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی، اراکین کمیٹی سینیٹر زالیاس بلور ، محسن لغاری ، محسن عزیز ، سلیم ایچ مانڈوی والا ،سعید الحسن مندوخیل، محمد علی خان سیف ، سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس پر بحث کی گئی اور سی این جی، فرٹیلائزرکے نمائندوں نے شرکت کی اور جی آئی ڈی سی وصولی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بریفنگ دی ۔سی این جی سیکٹر کے نمائندوں نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ریجن ون میں سی این جی کی قیمت 75روپے 8پیسے اور ریجن ٹو میں سی این جی کی قیمت 67روپے 50پیسے ہے ۔جی آئی ڈی سی کے بعد سی این جی سیکٹر کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔سی این جی کے نمائندوں نے جی آئی ڈی سی کے حوالے سے کمیٹی کو تجویز پیش کی کہ جن حضرات نے جی آئی سی ڈی ادا کردیا ہے ان کو واپس نہ کیا جائے اور جن فریقین نے عدالت سے رجوع کرلیا ہے ان سے وصول نہ کیا جائے ، تاہم کمیٹی نے کہا کہ سی این جی سیکٹر اپنی تجاویز لکھ کر کمیٹی کو بجھوا دیں تاکہ کمیٹی اس پر تفصیلی غور کر سکے۔ جس پر وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 2012سے2015تک سی این جی سیکٹر نے 40ارب روپے کا جی آئی ڈی سی ادا کرنا ہے تاہم سی این جی سیکٹر کے حوالے سے تجاویز طلب کر لی جائیں۔ انہوںنے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس صارفین سے تو وصول کیا ہے لیکن حکومت کو ادا نہیں کیا ہے۔ اجلاس میں کھاد سیکٹر سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی وصولی کامعاملہ آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔