اسلام آباد(نیوزڈیسک)سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سال کی چھٹی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ڈسکاونٹ انٹرسٹ ریٹ یعنی بینکوں کو قرض دینے کی شرح سود میں ایک فیصد کمی کا اعلان کیا ہے جو اب آٹھ فیصد سے کم ہو کر سات فیصد ہو گئی ہے۔ نومبر 2014 سے ہر دو ماہ بعد اسٹیٹ بینک مسلسل شرح سود میں کمی کر رہا ہے۔ بیالیس سال میں پہلی مرتبہ یہ شرح اپنی کم ترین سطح پر آئی ہے۔عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں کمی کے باعث ملک میں افراطِ زر کی شرح میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے جس سے مالیاتی پالیسی میں تبدیلی ممکن ہوئی۔چھٹی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر اشرف محمود وتھرا نے کہا کہ اس سے ملک میں کاروبار اور تجارت میں اضافہ ہو گا کیونکہ کاروباری اداروں کو قرض مزید آسان شرائط پر دستیاب ہو گا۔اگرچہ حکومتی عہدیدار اس تبدیلی کو بہت خوش آئند قرار دے رہے ہیں، لیکن کچھ ماہر اقتصادیات کے خیال میں شرح سود میں کمی سے معیشت پر خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے گفتگو میں کہا کہ ملکی معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی معیشت پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر چھوٹے اور درمیانے کاروباری ادارے اور افراد بینکوں سے قرض لینے کی بجائے اپنے ذاتی تعلقات پر انحصار کرتے ہیں۔ اسلئے کم شرح سود سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ڈاکٹر اکبر زیدی نے کہا کہ ”پاکستان میں صرف 17 سے 18 فیصد لوگوں کے پاس بینک اکاو¿نٹ ہیں۔ یہاں بہت کم افراد یا کمپنیاں بینک سے قرض لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں اور تیسری دنیا کے ملکوں میں جو منافع کمایا جاتا ہے اسی کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”ایک مفروضہ ہے کہ شرح سود کم کرنے سے اقتصادی صوتحال بہتر ہو گی۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے حوالے سے ان دونوں میں اتنا گہرا رشتہ ہے۔“ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے بچت سکیموں میں پیسہ لگانے والوں، خصوصاً بزرگ شہریوں پر اثر پڑے گا کیونکہ اب ان کے منافع کی شرح گھٹ کر سات فیصد ہو گئی ہے۔